آئین موم کی طرح ڈھلنے والا نہیں: 27ویں ترمیم پر جسٹس پنہور کا چیف جسٹس کو خط

سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور نے لکھا کہ ’پارلیمنٹ کا اختیار لامحدود نہیں، آئین موم کی طرح ڈھلنے والا نہیں ہے۔ آئین ریاست اور شہری کے درمیان ایک عہد ہے، عدلیہ اس کی خادم ہے، مالک نہیں ہے۔‘

سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت کا ایک منظر (سہیل اختر/انڈپینڈنٹ اردو)

سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس صلاح الدین پنہور نے چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا ہے جس میں انہوں نے مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ ’آئین موم کی طرح ڈھلنے والا نہیں ہے۔‘

خط کے متن، جس کی کاپی انڈپینڈنٹ اردو کے پاس موجود ہے، میں جسٹس صلاح الدین پنہور نے لکھا ہے کہ ’خاموشی احتیاط نہیں بلکہ دستبرداری ہے، ایسا وقت آ گیا ہے جب خاموش رہنا آئینی فریضے سے انحراف ہو گا۔‘

انہوں نے کہا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم عدلیہ کی بنیادوں کو چھو رہی ہے اور اس سے عدالتی آزادی متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ ’عدلیہ کی آزادی کوئی استحقاق نہیں بلکہ بنیادی شرط ہے، اگر عدلیہ آزاد نہیں تو قانون کی حکمرانی محض الفاظ رہ جائیں گے۔‘

جسٹس پنہور کے مطابق آئین نے عدلیہ کی آزادی کو آرٹیکل 175، 175A، 189، 190، 191 اور 209 میں محفوظ کیا ہے، جو عوام کی طویل جدوجہد کی ضمانت ہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ ’ترمیم سے عدالتی توازن متاثر ہو سکتا ہے جبکہ بینچز کی تشکیل، ججز کی تقرری و برطرفی اور مالی و انتظامی خودمختاری پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔‘

خط میں جسٹس نے کہا ہے کہ ’عدلیہ کے کسی ستون کو کمزور کیا گیا تو پورا ڈھانچہ ہل جائے گا۔ آزادی کل نہیں آج کے انکروچمینٹ سے ختم ہو سکتی ہے۔‘

جسٹس پنہور نے تجویز دی ہے کہ فل کورٹ اجلاس بلایا جائے تاکہ ترمیم کی ہر شق کا جائزہ لیا جا سکے۔ ’فل کورٹ دیکھے کہ یہ ترمیم عدالتی آزادی کو مضبوط کرتی ہے یا کمزور، اگر کمزور کرتی ہے تو سچ کہنا ہو گا۔‘

انہوں نے تجویز دی ہے کہ قانون و انصاف کمیشن کے ذریعے تکنیکی بریف تیار کیا جائے، پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز سے مشاورت کی جائے اور آرٹیکل 190 کے تحت عدالتی احکامات کو محفوظ رکھا جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جسٹس صلاح الدین پنہور نے مزید لکھا ہے کہ ’پارلیمنٹ کا اختیار لامحدود نہیں، آئین موم کی طرح ڈھلنے والا نہیں ہے۔ آئین ریاست اور شہری کے درمیان ایک عہد ہے، عدلیہ اس کی خادم ہے، مالک نہیں ہے۔ تاریخ فیصلوں کے حوصلے یاد رکھے گی۔‘

مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں پاکستان میں عدلیہ کے آئینی کردار، خودمختاری اور ساخت کے حوالے سے تبدیلیوں پر سینیئر وکلا کے علاوہ سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے بھی تحفظات سامنے آئے ہیں۔ 

عدالت عظمٰی کے کئی ججوں نے چیف جسٹس کو سوموار کو خطوط لکھتے ہوئے اس معاملے پر فُل کورٹ اور جوڈیشل کانفرنس بلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ 

اس فہرست میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں چیف جسٹس سے جوڈیشل کانفرنس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ ’ہمارا حلف تقاضا کرتا ہے کہ ہم عدلیہ پر عوام کے اعتماد کا دفاع کریں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سپریم کورٹ اکثر طاقتور کے ساتھ کھڑی رہی، عوام کے ساتھ نہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی عدالتی پھانسی عدلیہ کا ناقابل معافی جرم تھا۔ بے نظیر بھٹو، نواز شریف اور مریم نواز کے خلاف کارروائیاں بھی ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔‘

’بانی پی ٹی آئی عمران خان کے ساتھ ہونے والا سلوک اسی جبر کے تسلسل کا حصہ ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ نیشنل عوامی پارٹی کو اسی عدالت کے ذریعے کالعدم قرار دیا گیا لیکن ہم سب ان حالات میں خاموش ہی رہے۔‘

جسٹس اطہر من اللہ نے اپنے خط میں کہا کہ ’جو جج سچ بولتا ہے، وہ انتقام کا نشانہ بنتا ہے، اور جو نہیں جھکتا، اس کے خلاف احتساب کا ہتھیار استعمال ہوتا ہے۔ بیرونی مداخلت اب ایک روز نہیں بلکہ کھلی حقیقت ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان