صدر آصف علی زرداری نے آج 27ویں آئینی ترمیم بِل پر دستخط کر دئیے ہیں، ترمیم کے آئین کا حصہ بننے کے بعد قومی اسمبلی میں آج آرمی ایکٹ، ائیر فورس ایکٹ اور پاکستان نیوی ترمیمی بل بھی منظور کر لیے گئے ہیں۔
پاکستان ائیر فورس ایکٹ 1953، پاکستان نیوی آرڈینیس 1961، اور سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ترمیمی بل کثرت رائے سے منظور کیے گئے۔
وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ آرمی چیف اب چیف آف ڈیفنس فورسز بھی ہوں گے اور ان کے عہدے کی مدت پانچ سال ہوگی۔
وزیر اعظم چیف آف ڈیفنس فورسز کی تعیناتی کریں گے، ان کی تقرری کی مدت اس دن سے شروع ہوگی جب تعنیاتی ہوگی۔
وزیر قانون نے کہا ’قانون نے وضاحت کی ہے کہ چیف آف ڈیفنس کا عہدہ اپوائنٹمنٹ سے پانچ سال کا ہوگا۔ ائیر فورس اور نیوی میں کچھ تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ آئین کے مطابق نئی عدالت میں تعیناتیوں کی ترامیم منظور کر لی گئی ہیں، اس میں سب سے پہلی اپوائنٹمنٹ چیف جسٹس کی ہو گی۔‘
ذیلی شقوق کے حوالے سے ایک کابینہ رکن نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا ہے کہ ’27 ویں آئینی ترمیم کے بعد آرمی ایکٹ میں subsequent legislation (وہ قوانین جو کسی پہلے قانون کے بعد بنائے جائیں) کی ضرورت ہے۔‘
ان کے مطابق اس ضمن میں ’آرمی ایکٹ میں سات، آٹھ ترامیم پارلیمان سے منظوری کے لیے پیش کی جائیں گی، جن کی منظوری پہلے کابینہ سے کروائی جائے گی۔ یہ ترامیم آرمی، ائیر فورس و نیوی افواج، چیف آف ڈیفنس فورسز کی مدت ملازمت اور پریکٹس و پروسیجر سے متعلق ہیں۔‘
حکومتی وزیر کے مطابق صدر کے دستخط کے بعد جب یہ ترامیم قانون بن جائیں گی، اس کے بعد ان تمام مجوزہ ترامیم کو کابینہ کے سامنے منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ اس کے بعد ان ترامیم کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
ان ترامیم کو منظور کروانے کے لیے دو تہائی اکثریت نہیں بلکہ سادہ اکثریت درکار ہو گی۔
قبل ازیں اکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا (سینیٹ) نے بدھ کو 27ویں آئینی ترمیم میں مزید ترامیم کا بل اکثریت سے منظور کر لیا۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں ہونے والے سینیٹ کے اجلاس میں آئینی ترمیم کے حق میں 64 اراکین نے ووٹ دیا جبکہ چار نے مخالفت کی۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی کے سینیٹر احمد خان نے ترمیم کے حق میں ووٹ دیا، جبکہ جے یو آئی کے چار اراکین نے آئینی ترمیم کی مخالفت کی۔
دوسری جانب پی ٹی آئی اراکین سینیٹ نے ایوان میں احتجاجاً دھرنا دیا اور ’نا منظور‘ اور ’ہارس ٹریڈنگ‘ کے نعرے لگائے گئے۔ انہوں نے بل کی کاپیاں پھاڑ کر پھینکیں۔
بعد ازاں سینیٹر سیف اللہ ابڑو کے علاوہ تمام پی ٹی آئی اراکین نے ایوان سے واک آوٹ کر دیا۔
اس سے قبل وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بدھ کی دوپہر کو 27 ویں ترمیم کا نیا (ترمیم شدہ) بل سینیٹ میں پیش کر دیا ہے۔
سینیٹ کا اجلاس چیئرمین یوسف رضا گیلانی کی صدارت میں جاری ہے۔
یہ بل ابتدائی طور پر پیر کو سینیٹ میں ووٹنگ کے لیے پیش کیا گیا تھا اور اسی دن منظور کر لیا گیا تھا۔ اس کے بعد اسے قومی اسمبلی میں بھیجا گیا جس نے کل کچھ ترامیم کے ساتھ اس کی منظوری دی۔ اس لیے مجوزہ قانون سازی اب تازہ ترین تبدیلیوں پر غور کے لیے دوبارہ سینیٹ میں پیش کر دی گئی ہے۔
گذشتہ روز قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم پیش کی گئی تو اس میں ایک نئی ترمیم شامل تھی جو آرٹیکل چھ سے متعلق تھی۔ اب آئینی ترمیم میں آرٹیکل چھ کی شق دو میں ’وفاقی آئینی عدالت‘ کے لفظ کا اضافہ کیا گیا ہے۔
آئینی ترمیم کا نیا بل کیوں پیش کیا جا رہا ہے؟
آئین کے آرٹیکل چھ میں آئین معطل کرنے اور آئین شکنی کو سنگین غداری قرار دیا جا چکا ہے جسے کوئی بھی عدالت جائز قرار نہیں دے سکتی۔ سینیٹ میں دو تہائی اکثریت سے جو ترمیم منظور کی گئی اس میں ’ہائی کورٹ‘ اور ’سپریم کورٹ‘ کے ساتھ ’آئینی عدالت‘ کا نام شامل یا اس کا اضافہ نہیں تھا لہٰذا ترمیم کو آج دوبارہ سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
آئین میں کوئی بھی تبدیلی، حتی کہ وہ ’نقطہ‘ ہی کیوں نہ ہو، کو ترمیم کے ذریعہ پارلیمان کے دونوں ایوانوں سینیٹ اور قومی اسمبلی سے منظور کرانا ضروری ہوتا ہے اور اس کے لیے دونوں سے دو تہائی اکثریت درکار ہوتی ہے۔
گذشتہ روز جہاں قومی اسمبلی میں 27 ویں آئینی ترمیم کے حق میں 234 ارکان نے ووٹ ڈالے وہاں آج یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ سینیٹ یہ نمبر کیسے پورا کیا جائے گا؟
آئین پاکستان کے مطابق سینیٹ میں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے 64 ارکان کے ووٹ درکار ہوتے ہیں اور یہ نمبر سینیٹ کے اس سے قبل ہونے والے اجلاس میں اپوزیشن جماعتوں کے دو ارکان نے ووٹ دے کر پورا کیا۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیٹر سیف اللہ ابڑو اور جمعیت علمائے اسلام کے احمد خان نے 27 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالے تھے۔ ووٹ دینے کے بعد سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ایوان میں تقریر کے دوران استعفی دے دیا تھا جبکہ سینیٹر احمد خان کو ان کی جماعت نے پارٹی سے نکال دیا تھا۔
پارلیمانی قواعد و ضوابط کے مطابق اگر کوئی رکن ایوان میں سب کے سامنے استعفیٰ دے تو سینیٹ یا قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اس کا باضابطہ نوٹیفیکیشن جاری کرتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال میں رکن کو استعفے کی تصدیق کے مرحلے سے نہیں گزرنا ہوتا۔ اگر کوئی تحریری طور پر استعفی دیتا ہے تو قواعد کے مطابق چئیرمین سینیٹ یا سپیکر قومی اسمبلی، سینیٹر یا رکن قومی اسمبلی کو بلا کر استعفے کی تصدیق کرتے ہیں اس کے بعد ہی رکن کو ڈی سیٹ کرنے یا استعفے کی منظوری کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا ہوتا ہے۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے ایک بیان میں کہا کہ ان کے استعفے کے بعد سینیٹ سیکریٹریٹ نے تاحال انہیں ڈی سیٹ کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری نہیں کیا۔
یاد رہے اس سے قبل بلوچ نیشنل پارٹی کی سینیٹر نسیمہ احسان نے 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا تھا جس کے بعد انہیں پارٹی سے نکال دیا گیا تھا۔ تاہم نسیمہ احسان نے دو روز قبل 27 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا ہے۔
اس طرح ممکن ہے کہ سینیٹ میں دوبارہ وہی ارکان 27 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالیں جنہوں نے دو روز قبل ایوان میں اس کی حمایت کی تھی۔
صدر مملکت کے دستخط کے بعد 27 ویں آئینی ترمیم باقاعدہ قانون کی شکل اختیار کرے گی۔