موجودہ حکومت میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب منتخب ہوئے تھے کیونکہ اپوزیشن بینچوں پر تحریک انصاف اکثریت کے ساتھ موجود ہے۔ عمر ایوب کے بعد اب محمود خان اچکزئی کیسے اپوزیشن لیڈر ثابت ہوں گے؟ فرقہ ورانہ جماعت سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کی نمائندگی مزاحمت سے کریں گے یا مفاہمت سے؟
نو مئی کے کیسز میں عمر ایوب سمیت تحریک انصاف کے کئی اراکین اسمبلی نااہل ہوئے جن کا معاملہ اب سپریم کورٹ میں ہے۔ عمر ایوب کی نااہلی کے بعد اپوزیشن لیڈر کا عہدہ پانچ اگست سے خالی تھا، جس کے لیے پی ٹی آئی نے پختون خوا ملی پارٹی کے محمود خان اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر نامزد کیا تھا، جس پر اب انہیں جمعیت علما اسلام ف کی بھی حمایت حاصل ہو چکی ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے پارلیمانی امور کے ماہرین سے بات کی ہے۔ جے یو آئی ف کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ ’ہمارا بطور جماعت ایک مؤقف ہے کہ جو بڑی پارٹی اپوزیشن میں ہو، اکثریت نہ بھی ہو تو اس کا حق ہے۔ قائد حزب اختلاف چننے کا حق سب سے بڑی پارٹی کو ہی ہونا چاہیے۔ بانی تحریک انصاف نے محمود خان کو نامزد کیا ہے اور ہم انہیں قبول کرتے ہیں اور حمایت بھی کرتے ہیں۔‘
تحریک انصاف کے سابق رکن فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’محمود اچکزئی کو اپوزیشن لیڈر بنانے کا کریڈٹ اسٹیبلشمنٹ کو جاتا ہے جنہوں نے تحریک انصاف میں تمام درمیانی سوچ کے حامل لوگوں کو سیاسی طور پر مائنس کر دیا، اور اب تحریک انصاف کے پاس کوئی ایسا لیڈر ہی نہیں جس کا کوئی قد ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ عمران خان نے اچکزئی کو اس لیے لیڈر بنایا کہ وہ مزاحمت دیں گے، لیکن پاکستان کی قومی سیاست کا اس سے بڑا المیہ کیا ہو گا کہ تحریک انصاف جیسی وفاقی قومی جماعت کا لیڈر ایک قوم پرست ہو اور ایک فرقہ ورانہ جماعت کا لیڈر ہو؟‘
جبکہ پی ٹی آئی کا اس معاملے پر مختلف مؤقف ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی آئی رہنما عدیل اقبال نے انڈپینڈنٹ اردو کے سوال کے جواب میں کہا کہ ’محمود اچکزئی کا چناؤ کوئی ہارڈ لائنر پالیسی نہیں ہے۔ اب جتنی حکومت ہمارے ساتھ سخت ہے تو اس سے زیادہ اور کیا سختی ہو گی۔‘
انہوں نے کہا کہ ’محمود اچکزئی کو اس لیے قائد حزب اختلاف چنا گیا ہے کہ وہ ایک زیرک سیاست دان ہیں اور آل پارٹی کانفرنس میں بھی پی ٹی آئی کی نمائندگی کرتے ہیں، اس لیے وہ ایوان میں نمائندگی کے لیے بھی بہتر انتخاب ہیں۔ جہاں تک بات ہے کہ پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے کسی رکن کو قائد حزب اختلاف کیوں نامزد نہیں کیا گیا تو یہ سیدھی سی بات ہے کہ تحریک انصاف کا جو رکن سامنے آتا ہے، اس کے خلاف کوئی نہ کوئی کیس بنا دیا جاتا ہے۔ اس لیے پی ٹی آئی کے اراکین پیچھے رہ کر اپنی تحریک پر فوکس رکھیں گے۔‘
پارلیمانی امور کے صحافی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ چار مرتبہ قومی اسمبلی میں منتخب ہو چکے ہیں اور ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ مخالف رہے ہیں۔ رجیم تبدیلی کے وقت پی ڈی ایم تحریک میں یہ نواز شریف کے ساتھ تھے، لیکن اب یہ تحریک انصاف کے کیمپ میں آ چکے ہیں۔ پی ٹی آئی نے انہیں اپوزیشن لیڈر بنایا ہی اسی لیے ہے کہ یہ فوج کو سخت وقت دیں گے کیونکہ یہ فوج مخالف بولتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پی ٹی آئی کا یہ غلط فیصلہ ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس جب اپنے لوگ اسمبلی میں موجود ہیں تو دوسری جماعت کے لیڈر کو اپوزیشن لیڈر بنانا سنجیدہ فیصلہ نہیں ہے۔ میرے خیال میں پی ٹی آئی والے اب ٹکراؤ چاہ رہے ہیں کیونکہ محمود خان اچکزئی سخت نظریہ رکھتے ہیں اور ان کے ذریعے حکومت اور اسٹیبلشمنٹ پر دباؤ بنانا چاہتے ہیں۔‘