پاکستان کی قومی اسمبلی نے بدھ کو 27ویں آئینی ترمیم بل واضح اکثریت سے منظور کر لیا۔ ترمیم کے حق میں 234 جبکہ مخالفت میں چار ووٹ ڈالے گئے ہیں۔
یہ قانون سازی، جس میں فوجی و عدالتی ڈھانچوں میں بڑی تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں، دو روز قبل سینیٹ سے منظور ہو چکی ہے۔
قومی اسمبلی میں 27ویں آئینی ترمیم پر شق وار ووٹنگ کا عمل شروع ہوا تو حزب اختلاف نے ایوان سے واک آؤٹ کیا۔
اس موقع پر وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف بھی ایوان زیریں کے اجلاس میں شریک ہوئے۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 11 نومبر کو بل قومی اسمبلی میں پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ آئین میں ترامیم ایک ارتقائی عمل ہے اور اس حوالے سے تمام سٹیک ہولڈرز سے مشاورت کی گئی ہے۔
27ویں آئینی ترمیمی بل کو منظور کرنے کے لیے 336 رکنی ایوان میں دو تہائی اکثریت درکار تھی۔ اس حوالے سے ترمیم کے حق میں 234 جبکہ صرف چار ووٹ مخالفت میں پڑے۔
حکومت کو اعدادوشمار کے لحاظ سے پہلے ہی برتری حاصل تھی۔ مسلم لیگ (ن) کے 125، پیپلز پارٹی کے 74، ایم کیو ایم پاکستان کے 22، (ق) لیگ کے چار، استحکام پاکستان پارٹی کے چار اور بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پیپلز پارٹی اور (ز) لیگ کی ایک ایک نشست ہے۔
سینیٹ میں اس بل کو وزیر قانون نے پیش کیا تھا، جہاں 96 رکنی ایوان میں 64 ارکان نے اس کے حق میں ووٹ دیا اور کوئی ووٹ اس کے خلاف نہیں آیا تھا۔
ایوان بالا میں حکومتی ارکان کے ساتھ اے این پی کے سینیٹرز، پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ سیف اللہ ابڑو اور جے یو آئی (ف) کے احمد خان نے بھی بل کی حمایت کی۔ سیف اللہ ابڑو نے بعد ازاں احتجاج میں شامل نہ ہو کر سینیٹ کی نشست سے استعفیٰ دینے کا اعلان کیا۔
سپیکر ایاز صادق کی مذاکرات کی پیشکش
قومی اسمبلی کے سپیکر سردار ایاز صادق نے ایک مرتبہ پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی پیشکش کی۔
انہوں نے کہا: ’میں قومی اسمبلی کے سپیکر کی حیثیت سے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان مذاکرات کی سہولت دینے کو تیار ہوں۔ اگر دونوں فریق بیٹھ جائیں تو مسائل کا حل نکل سکتا ہے۔‘
ایاز صادق نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی بارہا مذاکرات کی دعوت دے چکے ہیں۔ ’اگر پہلے دن کچھ نتیجہ نہ بھی نکلے تو بات چیت جاری رہنے سے بہتری ممکن ہے۔ میرا کردار یہی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن کو ایک میز پر لاؤں۔‘
اس موقع پر پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے کہا کہ ان کی جماعت نے کبھی مذاکرات سے انکار نہیں کیا۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے بل کی وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’آئین میں ترمیم کا اختیار صرف پارلیمان کو حاصل ہے، کوئی آئینی عدالت اسے ازسرنو تحریر نہیں کر سکتی۔‘
وفاقی وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے اپوزیشن کو 27ویں آئینی ترمیمی بل کی مخالفت پر ’دوغلے معیار اور منتخب یادداشت‘ کا الزام دیا۔
انہوں نے کہا کہ ’اپوزیشن کے رہنما اپنی تقاریر میں 2022 سے پہلے کا کچھ یاد نہیں کرتے، جب عمران خان وزیراعظم تھے۔‘
عطا تارڑ کے مطابق پی ٹی آئی نے ’جبری نظام‘ کو اس وقت قبول کیا جب وہ خود اقتدار میں تھے مگر اب پارلیمان کے آئینی کردار کو تسلیم نہیں کر رہے۔ ’یہ دوغلی سیاست اور منتخب انصاف کی مثال ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
27ویں آئینی ترمیم کی اہم شقیں
27ویں آئینی ترمیم کے مجوزہ مسودے میں ملک کے عدالتی اور عسکری نظام میں نمایاں تبدیلیاں تجویز کی گئی ہیں۔ ترمیم کے تحت چیف آف آرمی اسٹاف کا عہدہ ختم کر کے چیف آف ڈیفنس فورسز کے نام سے ایک نیا عہدہ قائم کیا جائے گا۔ اسی طرح فیلڈ مارشل، مارشل آف ایئر فورس اور ایڈمرل آف فلیٹ کے عہدے تاحیات برقرار رہیں گے۔
ترمیم کے مطابق ملک میں ایک وفاقی آئینی عدالت (Federal Constitutional Court) قائم کی جائے گی، جس میں تمام صوبوں کو برابر نمائندگی دی جائے گی۔ اس عدالت کو ازخود نوٹس (سوموٹو) لینے کا اختیار بھی حاصل ہو گا جب کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک جج اس کے بینچ میں شامل ہو گا۔
نئی عدالت کے ججوں کی تقرری میں صدرِ مملکت اور وزیراعظم کلیدی کردار ادا کریں گے۔ ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے چند اختیارات بھی اس نئی آئینی عدالت کو منتقل کر دیے جائیں گے۔
مزید یہ کہ صدرِ مملکت کو مدتِ صدارت ختم ہونے کے بعد کسی عوامی عہدے پر فائز ہونے کی صورت میں استثنیٰ حاصل نہیں ہو گا۔ آئینی عدالت میں تقرری کے لیے امیدوار کا ہائی کورٹ میں کم از کم پانچ سالہ تجربہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔
ججوں کے تبادلے کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا جائے گا، جبکہ تبادلوں سے متعلق اعتراضات سپریم جوڈیشل کونسل میں زیرِ غور آئیں گے۔
قومی اسمبلی میں 27ویں آئینی ترمیم کی منظوری پاکستان کی آئینی و ادارہ جاتی تاریخ میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ اس بل کی منظوری کے بعد ملک کے عسکری اور عدالتی ڈھانچے میں نمایاں تبدیلیاں متوقع ہیں۔