سابق چیف جسٹس جناب جواد ایس خواجہ نے 27 ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا آئین کے مطابق کسی آئینی ترمیم کو کسی عدالت میں چیلنج کیا بھی جا سکتا ہے؟
آئین کے آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ پانچ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ کسی بھی آئینی ترمیم کو کسی بھی بنیاد پر کسی بھی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ یہ اصول آئین میں بہت پہلے سے موجود ہے۔ تازہ ترمیم سے بہت پہلے۔
اسی آرٹیکل کی ذیلی دفعہ چھ میں لکھا ہے کہ کسی شک و شبے کے ازالے کے لیے ایک بار پھر واضح کیا جاتا ہے کہ آئین میں ترمیم پارلیمان کا اختیار ہے اور اس اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔ جی ہاں، کسی بھی قسم کی۔
یہ اصول بھی آئین میں بہت پہلے سے موجود ہے، حالیہ ترمیم سے بہت پہلے سے۔ بعض یوٹیوبرز دہائی دے رہے ہیں کہ حکومت نے 27 ویں آئینی ترمیم میں یہ بات بھی شامل کر دی ہے کہ کوئی آئینی ترمیم عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکتی۔
یہ دہائی خلاف واقعہ ہے اور یوٹیوب پر ماہر قانون بننے کا منطقی نتیجہ ہے۔ اگر کسی نے آئین کی کتاب کھول لی ہوتی تو اسے معلوم ہوتا کہ یہ بات وہاں پہلے سے ہی موجود ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ تیسری بار اس وضاحت کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اس کا جواب بڑا سادہ ہے کہ چوں کہ یہ بات آئین میں ہونے کے باوجود یہ رسم ہی چل پڑی ہے کہ یہاں آئینی ترامیم عدالت میں چیلنج بھی ہوتی ہیں اور ان پر باقاعدہ سماعت بھی شروع ہو جاتی ہے۔ کسی کو اس بات کی کوئی پروا نہیں ہوتی کہ آئین جس کام سے واضح طور پر روک رہا ہے وہ کام کیسے اور کیوں کیا جا رہا ہے۔
اس آرٹیکل میں نئی ترمیم بس ایک تذکیر ہے اور عدلیہ کو ایک بار پھر واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ جناب والا! یہ جو آپ آئینی ترامیم کے خلاف مسلسل ہی پیٹیشنز سنتے چلے آ رہے ہیں تو ہم عرض کیے دیتے ہیں کہ اس کی آپ کو اجازت نہیں ہے۔
جب ہم جیسے طالب علم سوال اٹھاتے تھے کہ آئین میں ممانعت کے باوجود یہ کیسے ہو جاتا ہے کہ عدالتیں ایسی درخواستیں سن لیتی ہیں تو آگے سے ماہرین قانون بتاتے تھے کہ فلاں عدالت نے فلاں وقت پر فلاں فیصلے میں قرار دیا تھا کہ سن سکتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔ (یعنی عدالتی فیصلوں کو ان کے خیال میں آئین کے آرٹیکل پر فوقیت حاصل تھی)۔
اس تجاہل عادلانہ سے نمٹنے کے لیے اب اس آرٹیکل میں ایک چیز کا اضافہ کر دیا گیا ہے کہ ماورائے آئین عدالتی فیصلوں کی کوئی اہمیت ہے نہ ہی کسی عدالتی نظیر کی۔ جب آئین میں لکھ دیا گیا تھا کہ آئینی ترمیم کے خلاف کوئی درخواست کوئی عدالت نہیں سن سکتی اور اگر کوئی عدالتی فیصلہ اس آئینی شق سے ہٹ کر ہو تو اس فیصلے کی کوئی حیثیت نہیں۔
یعنی جو غلط ہوا، اسے آگے مثال نہیں بنایا جا سکتا۔ فل سٹاپ۔
آپ دیکھیے کہ یہاں بار بار آئینی ترامیم کو چیلنج کیا جاتا رہا اور اس پر سماعتیں ہوتی رہیں۔ اس تسلسل کا تازہ ترین پڑاؤ جناب جسٹس جواد ایس خواجہ ہیں جو صاحب کردار جج ہونے کے ساتھ ساتھ میرے لیے انتہائی قابل احترام اس لیے بھی ہیں کہ میری کتاب 'پس قانون' کا دیباچہ انہی نے لکھا تھا۔
گویا وہ بھی سمجھتے ہیں کہ آئین کی کوئی حیثیت نہیں اور آئین میں واضح منع کرنے کے باوجود عدالت اس معاملے کو سن سکتی ہے۔
یہی وہ روایت ہے جس نے عدالتوں کو اتنا طاقتور کیا کہ وہ چاہتیں تو تشریح کے نام پر آئین کو ازسرےنو لکھ دیتیں، ان کا دل کرتا تو وہ جنرل مشرف کو، یعنی ایک فرد واحد کو آئین میں ترمیم کا اختیار بھی عنایت فرما دیتیں، لیکن جب کوئی پارلیمان دو تہائی اکثریت سے جائز اور آئینی طریقے سے آئین میں ترمیم کرتی تو یہ اس پر سماعتیں شروع کر دیتیں کہ کیا یہ درست ہوا ہے یا نہیں۔
اس غیر آئینی رسم کو جواز دینے کے لیے ایک مفروضہ گھڑ لیا گیا کہ عدالتوں کا کام ہے کہ وہ دیکھیں کہ آئین کی کوئی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم تو نہیں۔ اسی اختراع کی بنیاد پر سپریم کورٹ نے 2015 میں کہا کہ آئین میں ممانعت کے باوجود ہم آئینی ترمیم کو دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں اور اسے کالعدم بھی قرار دے سکتے ہیں۔
سچ لیکن یہ ہے کہ یہ جواز انتہائی کمزور ہے۔ پاکستان کے آئین میں بنیادی ڈھانچے نام کی کوئی چیز بھی کہیں نہیں پائی جاتی۔ آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ فلاں فلاں چیز بنیادی ڈھانچہ ہے اور فلاں فلاں کی حیثیت ثانوی ہے۔
نہ ہی آئین میں کہیں یہ لکھا ہے کہ بنیادی ڈھانچے کی محافظ سپریم کورٹ ہے جو اس بنیادی ڈھانچے کو آئین ساز پارلیمان سے بچائے گی۔
کسی کے خیال میں ایسا ہونا چاہیے تو وہ آئین میں ترمیم کر لے جیسے بنگلہ دیش نے 15 ویں ترمیم کے ذریعے باقاعدہ بتا دیا کہ یہ یہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ہے، تاہم فی الحال ایسا کچھ نہیں۔ کسی کو شک ہے تو آرٹیکل 239 کی ذیلی دفعہ 6 کو ایک بار پھر پڑھ لے۔ لکھا ہے:
.For the removal of doubt, it is hereby declared that there is no limitation whatever on the power of the Majlis-e-Shoora (Parliament) to amend any of the provisions of the Constitution
(کسی بھی قسم کے شک کے خاتمے کے لیے قرار دیا جاتا ہے کہ آئین میں ترمیم کے پارلیمان کے اختیار پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں۔) جی ہاں، کسی بھی قسم کی کوئی پابندی نہیں ہے۔
اب تک تو جوڈیشل ایکٹیوزم نے آئین کے آرٹیکل 239 کی متعلقہ دفعات کو اہمیت نہیں دی اور آئینی ممانعت کے باوجود آئینی ترامیم چیلنج ہوتی رہیں اور ان پر کارروائی بھی ہوتی رہی اور پارلیمان بے بسی سے یہ سب کچھ ہوتا دیکھتی رہیں۔ لیکن کیا آگے بھی یہ مشق قائم رہ پائے گی؟
میرے خیال میں اس کا جواب نفی میں ہے۔ حالیہ ترمیم میں عدالتی نظیر اور فیصلوں پر اس معاملے میں اگر فل سٹاپ لگایا گیا ہے تو یہ بلاوجہ نہیں۔ مزید ایسا کچھ ہوا تو امکان یہ ہے کہ اب کی بار پارلیمان کا ردعمل آئے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
آخری سوال اب یہ ہے کہ پارلیمان کا وہ ممکنہ ردعمل کیا ہو سکتا ہے؟
ہو سکتا ہے پارلیمان پہلے کی طرح خاموش رہے اور اس کے لیے یہ یقین کافی ہو کہ ایسی درخواستیں بالآخر خارج ہی ہوں گی کیونکہ آئین کے مطابق کوئی آئینی ترمیم چیلنج نہیں ہو سکتی اور اب تو سماعت بھی وفاقی آئینی عدالت کرے گی۔
تاہم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پارلیمان اب کی بار انجمن مزارعین کا کردار ادا کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنا آپ منوانے کا فیصلہ کر لے اور کہے کہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کرنا آئین کی خلاف ورزی قرار دے۔
اگر ایسا ہوتا ہے تو یاد رہے کہ آرٹیکل چھ میں زرداری صاحب کے دور میں ترمیم ہو چکی ہے اور اب اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ آئین شکنی کی صورت میں عدلیہ پر بھی آرٹیکل چھ کا اطلاق ہو۔
دوسری اور قدرے نرم بات یہ ہو سکتی ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں حکومت ریفرنس دائر کر دے کہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں کی سماعت کر کے فلاں فلاں جج صاحبان نے آئین کی خلاف ورزی کی ہے اس لیے وہ اپنے منصب پر فائز رہنے کے قابل نہیں رہے، انہیں ہٹایا جائے۔
وقت ہی بتائے گا کہ آگے چل کر کیا ہوتا ہے لیکن فی الوقت پارلیمان جواب آں غزل کہنے پر مائل ہے۔ کوئی جوڈیشل ایکٹیوزم ہوا تو امکان یہی ہے کہ اس کے سامنے اب کی بار پارلیمانی ایکٹیوزم ہو گا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔