جب عمران خان خاموشی سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے چلے گئے

انڈپینڈنٹ اردو کی نامہ نگار نے آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کی پیشی کے دوران کیا دیکھا، جانیے اس رپورٹ میں۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری اور سپریم کورٹ سے ریلیف ملنے کے بعد جمعے کو عمران خان کی کیسز سے متعلق سماعت کور کرنے اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچی تو عدالت کے اطراف میں سکیورٹی کے غیر معمولی انتظامات نظر آئے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ سیکٹر جی ٹین میں واقع ہے، جی ٹین کے اشارے پر عدالت کے اطراف میں خار دار تاروں کے ساتھ آج کنٹینر بھی رکھے نظر آئے جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے گیٹ اور اطراف میں پولیس اور رینجرز اہلکاروں کے ساتھ بڑی تعداد میں سول کپڑوں میں ملبوس اہلکار بھی نظر آئے۔

سیکٹر جی الیون کے قریب پاکستان تحریک انصاف کے کچھ کارکنان جمع تھے جنہوں نے سری نگر ہائی وے پر جماعت کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے۔

’دعا ہے ہائی کورٹ جلد یہاں سے منتقل ہو جائے‘

عمران خان کی پیشی سے قبل کاروبار متاثر ہونے کی شکایات بھی سننے کو ملیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے اطراف میں ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ عدالت کے سامنے ایک دکان دار عمران خان کی عدالت میں پیشی سے کافی تنگ نظر آئے۔

گوشت کا کاروبار کرنے والے ایک دکان دار نے بتایا کہ ان کی ایک دکان کا کرایہ آٹھ لاکھ روپے ہے اور اسی روڈ پر دوسری دکان کا کرایہ 14 لاکھ ہے۔

’ہم تو تنگ آ گئے ہیں، ہمارا کاروبار بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ اب تو گاہک بھی تنگ آ کر اس طرف آنا چھوڑ گئے ہیں۔

’عدالت یہاں سے شفٹ ہونے کا سن رہے ہیں، دعا ہے ہائی کورٹ جلد یہاں سے منتقل ہو جائے پھر ریڈ زون میں لوگوں کو پتہ چلے گا۔‘

گیٹ پر شناخت کروانے کے بعد عدالت کے احاطے میں داخل ہوئے تو سابق گورنر پنجاب لطیف کھوسہ چند وکلا کے ہمراہ پاس سے خوش گوار موڈ میں کہتے گزرے کہ میں نے تو عمر عطا بندیال کو کہا کہ ’بڑی عزت افزائی ہوئی ہے آپ کی۔‘

لطیف کھوسہ آج کل اپنی سیاسی جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) سے ناراض بھی ہیں۔

اس دوران تحریک انصاف کے 14 کارکنان کو سری نگر ہائی وے سے گرفتار کیے جانے کی اطلاعات آئیں تو دوسری جانب سے عمران خان کی پولیس لائن سے ہائی کورٹ کے لیے روانگی کی خبر آ گئی۔

کچھ ہی منٹ بعد عمران خان سخت سکیورٹی میں اسلام آباد ہائی کورٹ پہنچ گئے۔

’بھائی میں میڈیا سے ہوں‘

گذشتہ پیشی پر عمران خان کی درخواست کے باوجود ان کی گاڑی کو عدالت کی عمارت کے اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی تھی لیکن آج جیسے ہی وہ ہائی کورٹ پہنچے تو بنا کسی رکاوٹ کے ان کی ایک گاڑی کو اندر جانے دیا گیا اور ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) خود ان کے ساتھ سکیورٹی پر مامور تھے۔

عمران خان جیسے ہی عدالت کے اندر گاڑی سے باہر نکلے تو وکلا کی بڑی تعداد نے، جو پہلے سے وہاں موجود تھی، ان کے حق میں نعرے بازی شروع کر دی۔

 آج سکیورٹی کے اتنے سخت انتظامات تھے کہ پولیس میڈیا کے نمائندوں سے پوچھا ’ہمیں بتائیں کہ کون کون میڈیا سے نہیں۔‘

خواتین پولیس اہلکاروں نے تو کچھ خاتون صحافیوں کی طرف اشارہ کرکے کہ کہا کہ انہیں بھی گرفتار کریں جس پر انہیں بتایا گیا کہ انہیں گرفتار مت کریں، یہ میڈیا سے ہیں۔

ایک صحافی کی طرف ہاتھ بڑھا کر پولیس اہلکاروں نے کہا کہ آپ ہمارے ساتھ آ جائیں جس پر اس خاتون صحافی نے بتایا کہ ’بھائی میں میڈیا سے ہوں۔‘

سپریم کورٹ کی جانب سے سکیورٹی فراہم کرنے کے احکامات کے بعد آج عمران خان کو کسی دوسری گاڑی میں لانے کی بجائے ڈی آئی جی سکیورٹی حسن علی خان نے اپنی گاڑی میں خود ڈرائیو کر کے انہیں ہائی کورٹ پہنچایا.

وہ مسلسل عمران خان کے ساتھ ساتھ رہے اور محتاط بھی نظر آئے، بعض دفعہ راستہ کلئیر کرواتے اور عمران خان کے قدموں کی طرف دیکھتے ہوئے نظر آئے۔

عمران خان کی پیشی کے دوران سارا میڈیا چیف جسٹس کے کمرے کے سامنے انتظار کرتا رہا لیکن اچانک معلوم ہوا کہ کیس منتقل کر دیا گیا ہے۔

اب عمران خان چیف جسٹس کی عدالت میں پیش نہیں ہوں گے اور جسٹس حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت کیس کی سماعت کریں گے۔

’عمران خان کی ٹانگ کا زخم ٹھیک ہو گیا؟‘

مقام بھی وہی، ملزم بھی وہی لیکن نہ ملزم نے ویل چیئر پر جانے کی ضد کی نہ ویل چیئر گاڑی کے اوپر کہیں نظر آئی اور عمران خان خود چل کر عدالت میں گئے ۔

اس سے قبل جب عمران خان عدالت میں پیش ہوئے تھے تو وکلا نے کہا تھا: ’عمران خان ویل چیئر کے بغیر اندر نہیں جا سکتے‘ لیکن گرفتاری کے وقت سے اب تک عمران خان بنا کسی مشکل کے گھومتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔

عمران خان سپریم کورٹ آتے وقت خود چل کر آئے تھے اور آج بھی ہائی کورٹ میں پیشی کے دوران وہ ہجوم کے بیچ چل کر کمرہ عدالت تک پہنچے۔

عمران خان کو وکلا کے ہجوم کے ہمراہ کمرہ عدالت میں پہنچا دیا گیا۔ کچھ منٹ بعد دھکم پیل اور متعدد بار گزارش کرنے کے بعد مجھے بھی اندر جانے کی اجازت مل گئی۔

اندر جا کر دیکھا تو چند وکلا کے علاوہ کوئی بھی عمران خان کے پاس موجود نہیں تھا اور وہ چپ چاپ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے شاید کچھ نوٹ کر رہے تھے۔

میں نے پاس جا کر ان کا حال چال پوچھا اور ان سے کچھ سوالات پوچھنے کی گزارش کی۔

عمران خان سے خصوصی گفتگو

ان کی دوبارہ گرفتاری سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ انہیں یقین ہے وہ جب باہر نکلیں گے تو انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا جائے گا۔

’بیوقوفی میں یہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں جیل میں ڈالنے سے یہ سب روک سکتے ہیں۔‘

میں نے پوچھا کہ کہا جا رہا ہے کہ باقی سیاسی رہنماؤں کے برعکس آپ کو سپریم کورٹ نے ریلیف دیا۔

اس پر عمران خان نے حیرانی میں کہا ’ریلیف؟ میں ہائی کورٹ میں بیٹھا ہوں، انہیں مجھے پکڑنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔

’مجھے اغوا کیا گیا ہے اور جیل میں لے جانے کے بعد وارنٹ دکھایا جاتا ہے۔ یہ تو جنگل کے قانون میں ہوتا ہے۔

’ایسا لگ رہا ہے کہ مارشل لا نافذ ہو گیا ہے۔ کل عدالت پہنچا تو پتہ چلا کہ 40 لوگ اس دوران جان کھو بیٹھے ہیں۔‘

سابق وزیر اعظم نے خود پر ہوئے قاتلانہ حملے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سیاسی جماعت کے سربراہ پر دو قاتلانہ حملے ہوئے اور اس کی جان بچ گئی، ’کیا وہ یہ بھی نہیں کر سکتا کہ ایف آئی آر درج کروانا جو میرا آئینی حق ہے کہ میں ایک نام بھی نہیں لے سکتا کیونکہ وہ ایک جنرل ہے؟

’یہ دنیا یا پاکستان کا قانون بتائیں کہ ایسا ہوتا ہے؟ کارروائی ہونے نہیں دیتے اور کہتے ہیں عمران خان نے غلط نام لے لیا، غلط ہونا کارروائی ثابت کرے گی۔‘

ابھی جسٹس حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت سماعت کے لیے اپنی نشستوں پر بیٹھے ہی تھے کہ ایک وکیل نے نعرے بازی شروع کر دی۔

جسٹس حسن اورنگزیب نے نعرے سنتے ہی کہا کہ ’ہم یہ کیس نہیں سنیں گے، یہ رویہ برداشت نہیں کریں گے۔ یہ کیس اب جمعے کے بعد سنیں گے۔‘ دونوں جج اپنی نشستوں سے اٹھ کر چلے گئے۔

اس دوران پی ٹی آئی کے وکیل شیر افگن نے نعرہ لگانے والے وکیل سے متعلق کہا ’ہم اسے نہیں جانتے، یہ نامعلوم ہے۔‘

بعد ازاں اس وکیل کو کمرہ عدالت سے باہر نکال دیا گیا۔ اسی دوران پی ٹی آئی کے دوسرے وکیل فیصل چوہدری نے ایک وکیل سے پوچھا کہ ’یہ شخص کون تھا؟‘

انہیں بتایا گیا کہ نعرے لگانے والے وکیل کا تعلق ایبٹ آباد سے تھا، وکیل فیصل چوہدری نے ہنس کر کہا کہ ’اسے گرفتار کروا دیتے ہیں۔‘

 ’جدون صاحب میں آپ سے معافی مانگتا ہوں‘

کچھ دیر گزرنے کے بعد عمران خان نے کمرہ عدالت میں کھڑے ہو کر کہا کہ ’سماعت کے دوران کسی قسم کی disturbance نہیں چاہیے۔ پہلے ایک بندہ پلانٹ کیا گیا تھا، اب ایسا ناخوش گوار واقعہ نہ ہو، ہم چاہتے ہیں ہمیں انصاف ملے۔‘

جس کے بعد ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے کہا ’اسے پلانٹڈ نہ کہیں، وہ آپ کی پارٹی کا تھا۔‘

اس کے بعد دوسرے وکلا کے درمیان بحث شروع ہو گئی اور ایک دوسرے کو ’شٹ اپ‘ کہنا شروع کر دیا۔ اسی شور کے دوران عمران خان نے کہا ’جدون صاحب میں آپ سے معافی مانگتا ہوں۔‘

جسٹس حسن اورنگزیب کی جانب سے کیسز سنے جانے اور ضمانت ملنے کے بعد عمران خان کمرہ عدالت میں اپنی نشست سے نکل آئے۔ اس دوران پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے ان کے حق میں شدید نعرے بازی کی۔

دوسری جانب عدالت کے گیٹ کے اطراف میں انتظامیہ ڈرون کیمروں کے ذریعے صورت حال کا جائزہ لیتی رہی اور شک کی بنیاد پر بعض افراد کی ریکارڈنگ کی گئی۔

عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ سے کل 22 کیسز میں ضمانت ملنے کے بعد عدالتی سماعت مکمل ہونے کے باوجود عمران خان کمرہ عدالت میں موجود رہے۔

سابق وزیر اعظم نے وکلا سے گفتگو میں کہا ’خدا کا واسطہ ہے آرڈر منگواؤ، صبح سے یہاں بیٹھ بیٹھ کر تھک گیا ہوں۔‘

عمران خان خاموشی سے چلے گئے

عمران خان کو ضمانت ملنے کے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے انتظار کے بعد میں ہائی کورٹ کے احاطے میں کھڑی تھی تو کلاشن کوف سے فائرنگ کی آوازیں وقفے وقفے سے سنائی دیں۔

کچھ دیر کے بعد عمران خان کے وکیل سلمان صفدر میڈیا کے پاس آئے تو ان سے چیئرمین پی ٹی آئی کی عدالت سے روانگی میں تاخیر سے متعلق پوچھا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس پر سلمان صفدر نے کہا ’ہمیں کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا، پولیس نے ہمیں کہا ہے کہ عمران خان سے بیان دلوائیں۔‘

آدھا گھنٹہ گزرنے کے بعد عمران خان نے کورٹ روم میں ایک بیان دیا جس میں انہوں نے عوام سے پرامن رہنے کی اپیل کی۔

انہوں نے کہا: ’میری ضمانت ہو چکی ہے، اسلام آباد کے راستے کھولیں تاکہ ہم یہاں سے روانہ ہو سکیں۔ راستے کلیئر ہوں گے تو لاہور کے لیے روانہ ہو سکوں گا۔

’راستے کھلوانے کے لیے تعاون کریں۔ ضمانت ملنے کے بعد دو گھنٹے سے راستے کھلنے کا انتظار کر رہا ہوں۔‘

اس ساری صورت حال میں پولیس اہلکار بھی ادھر سے ادھر دوڑتے نظر آئے۔

کچھ دیر بعد عدالت کے احاطے میں ہلچل ہوئی اور پولیس کی ایک گاڑی دوسرے کمرہ عدالت کا دروازہ جہاں عمران خان موجود نہیں تھے، کے باہر لا کر کھڑی کر دی گئی۔

چند منٹوں بعد عمران خان سکیورٹی کے ہمراہ اسی دروازہ سے تقریبا بھاگتے ہوئے نکلے اور گاڑی میں بیٹھ گئے۔

سابق وزیر اعظم کو خاموشی سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے پولیس کی گاڑی میں ججز گیٹ سے نکالا گیا۔

یہ منظر مجھ سمیت چند صحافیوں، وکلا اور سکیورٹی اہلکاروں نے دیکھا۔

جن افراد نے نہیں دیکھا وہ تقریباً پانچ منٹ تک یقین نہیں کر سکے اور مجھ سے پوچھا ’آپ کو یقین ہے عمران خان ایسے چلے گئے؟‘ انہیں یقین نہیں آ رہا تھا کہ عمران خان واقعی اتنی خاموشی سے چلے گئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان