پولیس لائنز سماعت: لوگ پوچھتے رہے عمران خان کی طبیعت کیسی ہے؟

عمران خان کے خلاف مقدمے کی سماعت کے دوران نامہ نگار قرۃ العین شیرازی نے اسلام آباد میں پولیس لائنز کے باہر کیا مناظر دیکھے؟

پولیس دس مئی 2023 کو اسلام آباد سے تحریکِ انصاف کی کارکن عورتوں کو گرفتار کر رہی ہے (اے ایف پی) 

سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کو گرفتار کیے جانے کے بعد پولیس لائنز میں رکھا گیا ہے جس کو حالات کے پیش نظر گذشتہ رات ہی سب جیل قرار دیا گیا تھا۔

اس حوالے سے پی ٹی آئی میڈیا سیل کے نمائندے نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی جماعت کے کارکنان کو آج صبح آٹھ بجے پولیس لائنز کے باہر اکٹھا ہونے اور احتجاج کرنے کی کال دی گئی ہے۔

میں تقریباً سوا آٹھ بجے پولیس لائنز کے گیٹ جو سیکٹر جی الیون اور کشمیر ہائی وے سے سیکٹر ایچ الیون کو جوڑتا ہے کے سامنے پہنچی تو دیکھا کہ گیٹ کے تین اطراف سے سڑکوں کو خاردار تاریں لگا کر بند کیا گیا تھا جبکہ کنٹینرز رکھے جا رہے تھے۔ 

پولیس نے باقی میڈیا نمائندگان سمیت ہمیں پیچھے ہٹنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا، ’یہاں سے سائیڈ پر ہو جائیں۔‘

اس دوران پی ٹی آئی کی تین چار خواتین کارکنان آ گئیں، ان خواتین کے علاوہ کوئی بھی کارکن نظر نہیں آ رہا تھا۔ تقریباً نو بجے کے قریب ان میں سے ایک خاتون میرے پاس آئیں اور کہنے لگیں، ’ہمیں تو وٹس ایپ گروپ میں کہا گیا تھا کہ آٹھ بجے پہنچنا ہے لیکن یہاں تو کوئی بھی نہیں آیا۔‘

انہوں نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے بتایا کہ ان کا نام مناہل ہے اور وہ گذشتہ روز جی ایچ کیو میں احتجاج کرنے والوں میں شامل تھیں۔ 

مناہل نے منگل کو جی ایچ کیو پر حملے کی روداد سناتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو جی ایچ کیو کا گیٹ توڑنے اور حملہ کرنے سے روکتی رہیں ’لیکن میری کی بات کسی نے نہیں سنی لیکن اس دوران دو افراد عوام کے جذبات کو اشتعال دلا رہے تھے۔‘ 

اس دوران پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی، اسد عمر، مسرت چیمہ، وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان سمیت دیگر رہنما ابتدائی طور پر پولیس لائنز پہنچے جنہیں اندر عمران خان سے ملنے نہیں دیا گیا جبکہ دس بجے تک پارٹی کی صرف 15 خواتین کارکنان ہی پولیس لائن کے باہر موجود تھیں۔

پولیس لائن کی شاہراہ جو ابتدائی طور پر کھلی ہوئی تھی، سماعت کا وقت قریب آتے ہی اس شاہراہ کو کنٹینر لگا کر بند کر دیا گیا بلکہ ایف سی اور رینجرز کے اہلکار بھی بڑی تعداد میں پولیس لائن پہنچ گئے اور یوں کچھ دیر بعد سری نگر سے پولیس لائن کی طرف جانے والی شاہراہ کو بند کر دیا گیا۔ 

ایسے میں کارکنان کافی غصے میں نظر آئیں اور نعرے بازی کرتی رہیں۔ ایک خاتون کارکن نے ایف سی اور رینجرز کی گاڑیوں کو آتے ہوئے دیکھا تو کہا، ’اس طرح تو کلبھوشن کو بھی عدالت میں پیش نہیں کیا گیا تھا جس طرح عمران خان کو پیش کیا جا رہا ہے اور اتنی سکیورٹی بلائی جا رہی ہے۔‘

پولیس لائنز کے باہر پہنچنے والے پی ٹی آئی کے کارکنان کافی پریشان نظر آئے اور بعض رہنما میڈیا کے نمائندوں سے پوچھتے ہوئے نظر آئے، عمران خان سے متعلق کیا اطلاعات ہیں، ان کی طبیعت کیسی ہے، انہیں کہاں رکھا گیا ہے؟‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ آصف زرداری، نواز شریف، مریم نواز سمیت اہم رہنماؤں کے اہم کیسوں کی سماعت میں میڈیا کو کوریج کی اجازت ہوتی ہے لیکن عمران خان کے خلاف کیس کی سماعت کور کرنے کے لیے جب پولیس لائن پہنچے تو بتایا گیا کہ کوئی میڈیا کا نمائندہ کیس کی سماعت کور نہیں کر سکے گا اور صرف وکلا کو پولیس لائن میں جانے کی اجازت ہو گی۔

اسی وجہ سے وکلا کے باہر آنے تک معلوم بھی نہیں ہو سکتا تھا کہ سماعت کے دوران کیا ہوا۔

شاہ محمود قریشی نے پولیس لائن کے باہر میڈیا سے گفتگو میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد پارٹی کون سنبھالے گا سے متعلق سوال کا جواب دینے سے گریز کیا جبکہ اسد عمر نے بتایا کہ عمران خان نے سات رکنی کمیٹی تشکیل دی تھی وہ کمیٹی پارٹی کے تمام فیصلے کرے گی جبکہ اس کمیٹی کی سربراہی شاہ محمود قریشی کریں گے۔

اس سے قبل شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ انہوں نے مشاورتی اجلاس بلایا ہے لیکن اعظم سواتی سے رابطہ نہیں ہو پا رہا اور ان کو میڈیا ٹاک کے ذریعے پارٹی  آفس پہنچنے کا پیغام دیا۔

عمران خان کی سماعت کے دوران جج کے سامنے تشدد کی شکایات

عمران خان کے وکیل گوہر خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج عمران خان کو عدالت کے سامنے پیش کیا گیا جہاں انہوں نے جج کے سامنے تشدد کی شکایات کی ہیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’عمران خان نے جج سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھ پر تشدد کیا گیا ہے، انہوں نے کہا تشدد کے باعث چوٹ بھی لگی ہے اور میرے اوپر گرفتاری کے دوران تشدد کیا گیا۔‘

گوہر خان نے بتایا کہ عمران خان کا مورال بہت ہائی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کی وکلا ٹیم نے عدالت سے استدعا کی ہے کہ ’یہ مارشل لا کے دوران بھی ایسا نہیں ہوا، ہم نے تو مارشل کے دور میں بھی پولیس لائن میں کورٹ بنتے ہوئے نہیں دیکھے۔‘

عمران خان کے وکلا نے ’عدالت سے استدعا کی ہے کہ انہیں عدالت پر اعتماد نہیں ہے اس لیے کیس ٹرانسفر کی درخواست بھی دی ہے۔‘

مظاہرین آنسو گیس کے شیل اٹھا کر واپس پولیس کی جانب پھینکتے رہے

سماعت شروع ہونے کے کچھ دیر بعد سری نگر ہائی وے پر پی ٹی آئی کارکنان اور پولیس کے درمیان پتھراؤ کا سلسلہ بھی جاری رہا۔ پی ٹی آئی کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے پولیس کی جانب سے شدید شیلنگ بھی کی جا رہی تھی جبکہ مظاہرین آنسو گیس کے شیل اٹھا کر واپس پولیس کی جانب پھینکتے رہے۔ 

کارکنان نے دعویٰ کیا کہ ان پر ربڑ کی گولیاں بھی چلائی گئیں۔ شیلنگ کے دوران بعض کارکنان نے بکتر بند گاڑی پر پتھراؤ کر کے پیچھے دھکیلا، جس دوران پولیس اہلکار بھی زخمی ہوئے جبکہ بعض کارکنان پر پولیس ڈنڈے بھی برساتی نظر آئی۔ 

شدید شیلنگ میں میری نظر اچانک ایک گاڑی پر پڑی جو اس ہنگامے کے بیچ میں بنا کسی فکر کے آرام سے کھڑی رہی۔ گاڑی کے قریب جا کر دیکھا تو گاڑی کے اندر تحریک انصاف کے رہنما عاطف خان موجود تھے جو شدید شیلنگ کے دوران آکسیجن سے بچاؤ کے لیے ماسک پہنے بغیر سگریٹ نوشی کرتے ہوئے اور پولیس اور کارکنان کے درمیان جھڑپوں کے مناظر دیکھتے ہوئے نظر آئے۔ 

شیلنگ میں اضافہ ہوا تو کچھ کارکنان  آ کر عاطف خان سے ملے اور پھر دوبارہ کارکنان ساتھیوں کے پاس چلے گئے، وہ کارکنان سے بات کرتے اور انہیں اشاروں کے ساتھ بظاہر کچھ سمجھاتے نظر آئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان