ہراسانی سکینڈل: ’ایک گروپ وی سی کو ہٹانا، دوسرا بچانا چاہتا ہے‘

بلوچستان سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ کہتے ہیں کہ صرف وی سی کو ہٹانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ  تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور ملوث ملزمان کو ہراسمنٹ کے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔

جامعہ بلوچستان میں طالبات کو ہراساں کرنے کے واقعات اور ان کی تحقیقات کے منظر عام پر آنے کے بعد احتجاج میں شدت  کے باعث بلوچستان حکومت نے وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی جاوید اقبال کو عارضی طور پرعہدے سے ہٹا دیا ہے۔

وائس چانسلر کو ہٹائے جانے کے باوجود طلبا تنظیموں کی جانب سے مظاہروں اور طالبات کو ہراساں کرنے کے خلاف دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے۔

طلبا تنظیم بلوچ سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی سمجھتی ہے کہ عارضی اقدامات سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور تحقیقات کا دائرہ بڑھایا جانا چاہئیے۔

جامعہ بلوچستان میں ایف آئی اے کی جانب سے ہراسانی کیسز کی تحقیقات کے بعد یونیورسٹی کا تعلیمی  نظام تعطل کا شکار ہوگیا ہے اور طلبا کی حاضری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔

بلوچستان سٹوڈنٹس ایکشن کمیٹی کے چیئرمین ڈاکٹر نواب بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم سجھتے ہیں ہراسمنٹ ایک عارضی مسئلہ نہیں ہے۔ ان کے مطابق جامعہ بلوچستان کے ہراسمنٹ سکینڈل کی آڑ میں دو گروپ سرگرم ہیں جن میں ایک وی سی کو ہٹانا اور دوسرا بچانا چاہتا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال کی وی سی کے عہدے سے دستبرداری کے بعد گورنر بلوچستان نے پروفیسر محمد انور پانیزئی کو قائم مقام وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی تعینات کر دیا ہے۔

نواب بلوچ کے بقول ہمارا مطالبہ ہے کہ صرف وی سی کو ہٹانا مسئلے کا حل نہیں بلکہ  تحقیقات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا جائے اور ملوث ملزمان کو ہراسمنٹ کے قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہراساں کرنے کے کیسز صرف جامعہ بلوچستان تک محدود نہیں بلکہ ہماری اطلاعات کے مطابق وومن یونیورسٹی، بیوٹمز اور دیگر اداروں میں بھی ایسے کیسز ہوئے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈاکٹر نواب نے بتایا کہ موجودہ صورت حال کے باعث بلوچستان یونیورسٹی میں خوف کا ماحول ہے اور اکثر طالبات ہاسٹلز کو چھوڑ کر گھروں کو جاچکی ہیں۔ دوسری جانب بلوچستان یونیورسٹی کی اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن سمجھتی ہے کہ موجودہ صورتحال میں اساتذہ کی عزتیں داؤ پر لگی ہیں اور ان کے مطابق ان کیسوں کی تحقیقات مکمل ہونے تک وہ چین سے نہیں بیٹھیں گے۔

واضح رہے کہ جامعہ بلوچستان کے وائس چانسلر کو ہٹانے کے باوجود یونیورسٹی کے باہر طلبا تنظیموں نے مظاہرہ کیا اور مطالبات کے حق میں دھرنا دیا۔ اکیڈمک سٹاف ایسوسی ایشن کے نائب صدر فرید اچکزئی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہمارا مطالبہ روز اول سے یہی ہے کہ یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبا کا اعتماد بحال کیا جائے۔ فرید اچکزئی کے مطابق موجودہ صورت حال کے باعث 70 فیصد طالبات یونیورسٹی نہیں آرہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ ہراسمنٹ کے سکینڈل کی مکمل تحقیقات کرکے اس کی رپورٹ منظر عام پر لائی جائے اور ملوث ملزمان کو سزا دی جائے۔

فرید اچکزئی کے مطابق وائس چانسلر کو  ہٹانا ان کا بنیادی مطالبہ تھا تاکہ وہ تحقیقات پر اثر انداز نہ ہو سکیں۔ گو بلوچستان حکومت نے وائس چانسلر کو عارضی طور پر تحقیقات مکمل ہونے تک عہدے سے ہٹا دیا ہے تاہم طلبا سمجھتے ہیں کہ یہ احتجاج اور سیاسی جماعتوں کے دباؤ کو وقتی طور پر کم کرنے کی کوشش ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان