پاکستان کے لیے آسٹریلوی اخبارات کا طرز احتجاج نیا نہیں

ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ خبروں کا بلیک آؤٹ تقریباً تمام بڑے نجی اخبارات کیا کرتے تھے حتیٰ کہ صوبائی دارالحکومتوں اور دیگر چھوٹے شہروں سے چھپنے والے مقامی زبانوں کے اخبارات نے بھی روکی جانے والی خبروں کی جگہیں خالی چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔

(سوشل میڈیا)

پیر کو آسٹریلیا کے اخبارات نے صفحہ اول پر خبروں کی سطور اور سرخیوں کو سیاہی سے چھپا کر آزادی صحافت کو لاحق خطرات کے خلاف منفرد احتجاج کیا لیکن پاکستان کے لیے یہ کچھ نیا نہیں۔

آسٹریلیا کے اخبارات کے ان مدیروں نے اپنے اپنے صفہ اول پر سرخ رنگ کی سیکریٹ (خفیہ) کی مہر بھی ثبت کی جبکہ ایک سوال بھی کیا: ’جب حکومت آپ سے سچ چھپاتی ہے، تو وہ کس چیز پر پردہ ڈال رہی ہوتی ہے؟‘

پاکستان میں بہت کم لوگوں کو معلوم یا یاد ہو گا کہ پاکستانی اخبارات بھی ماضی میں اسی طرح کا احتجاج کرتے رہے ہیں۔ اسی قسم کا احتجاج گذشتہ ہفتے دیکھنے میں آیا جب ایک نجی ٹی وی چینل ’جیو نیوز‘ نے مولانا فضل الرحمان کی ایک پریس کانفرنس پر لگائی گئی پابندی سے متعلق خبر منفرد انداز میں پیش کی۔

ستر اور اسی کی دہائی میں آزای صحافت کی تحریک میں سرگرم رہنے والے سینیئر صحافی ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا کی تاریخ اس طرح کے احتجاجوں سے بھری پڑی ہے۔ انہوں نے یاد دلایا کہ ضیا الحق کے مارشل لا کے دوران تو اخبارات میں چھپنے والی قرآنی آیات کو بھی سینسرشپ کے عمل سے گزارا جاتا تھا۔

5 جولائی1977 کو اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا الحق نے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت ختم کر کے مارشل لا نافذ کیا۔ ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ عمل میں آیا جس کی وجہ سے بنیادی انسانی حقوق بھی معطل ٹھہرے۔

سینیئر صحافی محمد ضیا الدین کا کہنا تھا کہ ’ضیا کے اقتدار سنبھالتے ہی میڈیا پر پابندیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا اور 1978میں صورت حال بالکل ابتر ہو گئی تھی۔ انہوں نے بتایا: ’سینسرشپ کی سختیاں جب حد سے زیادہ بڑھ گئیں تو پاکستانی اخبارات نے احتجاج کا منفرد طریقہ اپنایا۔‘

1978میں ایک صبح تقسیم کیے جانے والے اخبارات میں کئی کئی کالم بالکل خالی تھے۔ ناصر زیدی، جو اس وقت ملتان میں سرکاری نیوز ایجنسی اے پی پی سے منسلک تھے، کے مطابق ’قاری کو بخوبی اندازہ ہو جاتا تھا کہ خالی جگہ لگنے والی خبر کو حکومت نے روک لیا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ضیا الدین کا کہنا تھا: ’کسی بھی اخبار کے ہر صفحے پر چار یا پانچ خبروں کی جگہ خالی چھوڑ دی جاتی تھی۔ اخبار چھاپہ خانے جانے سے پہلے پریس انفارمیشن دیپارٹمنٹ (پی آئی ڈی) کے دفتر جاتا۔ جہاں ڈیوٹی پر موجود اہلکار ہر خبر کو پڑھتے اور ’قابل اعتراض‘ الفاظ، سطور، پیراگراف یا پوری کی پوری خبر کو نکال دیا کرتے تھے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ بہت ساری ایسی چیزیں تھیں جو اخبار میں کسی صورت بھی چھپ نہیں سکتی تھیں۔ ان میں سرفہرست سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے متعلق خبریں تھیں۔

ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ انسانی حقوق سے متعلق خبروں کو تو وہ کسی صورت اخبار میں لگا نہیں سکتے تھے حتیٰ کہ اخبارات میں چھپنے والی قرآنی آیات اور احادیث کو بھی اسی نظر سے دیکھا جاتا کہ کہیں انسانی حقوق سے متعلق کسی بات کا ان میں ذکر نہ ہو۔

ستر کی دہائی میں پاکستان میں تین بڑے میڈیا ہاوسز (جنگ گروپ، ہیرالڈ (ڈان) گروپ اور نوائے وقت گروپ) تھے جبکہ حکومتی سربراہی میں نیشنل پریس ٹرسٹ (این پی ٹی) کے تحت کئی اردو اور انگریزی زبانوں کے سرکاری اخبارات (مشرق، امروز، پاکستان ٹائمز وغیرہ) نکلتے تھے۔

ناصر زیدی کا کہنا تھا کہ خبروں کا بلیک آؤٹ تقریباً تمام بڑے نجی اخبارات کیا کرتے تھے حتیٰ کہ صوبائی دارالحکومتوں اور دوسرے چھوٹے شہروں سے چھپنے والے مقامی زبانوں کے اخبارات بھی روکی جانے والی خبروں کی جگہیں خالی چھوڑا کرتے تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سندھی اخبارات کا بالخصوص ذکر کیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بعض اوقات تو اخبارات کے پورے صفحات خالی چھاپ دیے جاتے تھے۔ ضیا الدین کا کہنا تھا: ’مالکان اخبارات اپنے مفادات کی خاطر ہمیشہ سے حکومت اور طالع آزما حکمرانوں کے شراکت دار رہے ہیں۔‘

صحافیوں کی جدوجہد سے متعلق بات کرتے ہوئے ضیا الدین نے کہا: ’اس زمانے میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) بہت زیادہ سرگرم تھی۔ اور اس کی وجہ تھی کہ اس کی بھاگ دوڑ منہاج برنا اور نثار عثمانی جیسے پڑھے لکھے اور دانشور صحافیوں کے ہاتھوں میں تھی۔ پی ایف یو جے کے یہی رہنما مالکان اخبارات کی آنھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے تھے اور انہیں احتجاج کے نت نئے طریقوں پر مجبور کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ صحافیوں اور اخباری کارکنوں کی ہڑتالوں سے حکومت پر بہت زیادہ دباؤ پڑتا تھا۔ خیال ہے کہ صحافیوں کے اسی اتحاد کے ڈر سے حکومت نے اخبارات کے مالکان اور بعض کالی بھیڑوں کی مدد سے پی ایف یو جے کو دھڑوں میں تقسیم کروایا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اخبارات میں خبروں کی جگہیں خالی چھوڑنے والی مہم 1985تک جاری رہی تھی۔

ناصر زیدی کا کہنا تھا: ’پاکستان کے اندر اس احتجاج سے کوئی زیادہ اثر تو نہیں ہوا۔ تاہم آزادی رائے اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے بین الاقوامی اداروں کی جانب سے پاکستانی حکومت پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان