مظفرآباد: پولیس اور مظاہرین کے تصادم میں راہ گیر ہلاک، 80 زخمی

آزادی پسند جماعتوں کے اتحاد پیپلز نیشنل الائنس کے سینکڑوں کارکنوں نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی طرف مارچ کرنے کی کوشش کی تو پولیس نے انہیں روک دیا۔

پولیس اور مظاہرین کے درمیان تصادم کئی گھنٹوں تک جاری رہا اور پولیس مظاہرین کا پیچھا کرتے پورے شہر میں پھیل گئی ( جلال الدین مغل)

 

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں آزادی پسند جماعتوں کے اتحاد پیپلز نیشنل الائنس (پی این اے) کے کارکنوں اور پولیس کے درمیان خونریز تصادم کے نتیجے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق ایک راہ گیر ہلاک اورکم از کم 80 افراد زخمی ہو چکے ہیں جبکہ پولیس نے پی این اے کے درجنوں کارکنوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔

منگل کو مظفرآباد کے یونیورسٹی گراونڈ میں جمع ہو کر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی طرف مارچ کرنے والے پی این اے کے سینکڑوں کارکنوں کو پولیس نے گراونڈ کے باہر سی ایم ایچ روڈ پر روک لیا۔

عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین مسلسل آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے تھے تاہم پولیس نے رکاوٹیں کھڑی کر کے انہیں روکے رکھا۔ اس دوران مظاہرے کے منتظمین اور مظفرآباد کی انتظامیہ کے درمیان مذاکرات بھی جاری رہے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر کی مداخلت پر مظاہرے کے قائدین اپنا مارچ اسمبلی کے بجائے سینٹرل پریس کلب تک محدود رکھنے پر راضی ہو گئے تھے مگر پولیس نے انہیں آگے جانے کی اجازت دینے کے بجائے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔

پی این اے کا قیام 5 اگست کو بھارت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کے خاتمے کے بعد عمل میں آیا اور اس اتحاد میں یاسین ملک کی جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ سمیت لگ بھگ 16 قوم پرست کشمیری جماعتیں شامل ہیں۔ یہ جماعتیں جموں و کشمیر کے تمام حصوں سے فوجوں کے انخلاء کشمیر کی خود مختار حیثیت کا مطالبہ کرتی ہیں۔

گذشتہ روز کے احتجاج کے دوران پی این اے کا مطالبہ تھا کہ پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے درمیان اختیارات اور دائرہ کار کا تعین کرنے والے معائدہ کراچی کو ختم کیا جائے اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان کو ملا کر بااختیارآئین ساز اسمبلی تشکیل دی جائے اور پاکستان اس ریاست کی خود مختار حیثیت کو تسلیم کرے تاکہ یہ اسمبلی تنازع کشمیر پر عالمی سطح پر سفارت کاری کر سکے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پی ایم اے کے چارٹر آف ڈیمانڈز میں بھارت کے زیر انتطام کشمیر میں کرفیو کے خاتمے اور ریاست کے تمام حصوں میں قانون باشندگی (سٹیٹ سبجیکٹ رول) کی بحالی کے علاوہ گلگت بلتستان اور بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔

رات گئے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر اور پی این اے کی قیادت کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے دوران مظاہرین پر تشدد اور مزید گرفتاریاں روکنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ اسی دوران پولیس نے 35 گرفتار مظاہرین کی ایک فہرست بھی پیش کی ہے۔ پی این اے اپنے گرفتار کارکنان کی غیر مشروط رہائی اورتصادم کی جوڈیشل انکوائری کا مطالبہ کیا ہے تاہم وزیر اعظم نے ان کے مطالبات پر عملدرآمد کے لیے وقت مانگا ہے

تصادم میں پہل کسے نے کی؟

پی این اے کے چیئرمین راجہ ذوالفقار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا مارچ’ پر امن تھا اور انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ ہم پریس کلب تک جا کر اپنا احتجاج ختم کر یں گے۔‘

انہوں نے کہا: ’میری وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر سے بھی بات ہوئی تھی اور انہوں نے کہا تھا چونکہ اسمبلی کا اجلاس جاری ہے اس لیے احتجاج کو پریس کلب تک ہی محدود رکھا جائے۔ مگر پولیس نے رکاوٹیں ہٹھانے کے بجائے لاٹھی چارج شروع کر دیا۔‘

تاہم پولیس حکام کے مطابق پی این اے کے کارکنوں نے پہلے پولیس پر حملہ اور پتھراو کیا۔ ایک اعلیٰ عہدیدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پی این اے کے کارکنوں نے رکاوٹیں ہٹانے والے پولیس اہلکاروں پر حملہ کیا اور پتھراو کیا جس کے جواب میں پولیس کو مجبوراً لاٹھی چارج کرنا پڑا۔

 

پولیس اور مظاہرین کے درمیان سی ایم ایچ کے قریب شروع ہونے والا تصادم پورے شہر میں پھیل گیا اور سوشل میڈیا پر موجود ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس اہلکار عمارتوں کے اندر داخل ہو کر نوجوانون کو نکال کر لاٹھی چارج کرتے ہیں۔

مظاہرے میں شامل ایک نوجوان جواد پارس کے بقول پولیس کے ارادے شروع سے ہی ٹھیک نہیں تھے اس لیے انہوں نے مظاہرے میں شامل خواتین کو پہلے ہی الگ کر دیا تھا۔

عینی شاہدین نے کیا دیکھا؟

عینی شاہدین کے مطابق مظاہرین مختلف گلیوں میں جمع ہو کر پولیس پر پتھروا کرتے رہے جبکہ پولیس نے پتھراو کے علاوہ آنسو گیس کا بے تحاشہ استعمال کیا جس سے راہ گیر، جن میں سکولوں کے بچے اور صحافی بھی شامل ہیں، متاثر ہوئے۔

اس دوران کئی پولیس اہلکاروں نے بلا امتیاز لاٹھی چارج کیا جس سے کئی راہ گیر زخمی ہوئے۔ ایک اور ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس کے کچھ اہلکار راہ گیروں کو بچانے کی کوشش کرنے والے ایک شخص پر لاٹھیاں برسانے کی کوشش کر رہے ہیں جبکہ کچھ پولیس اہلکار انہیں روک رہے ہیں۔ اس شخص کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ ڈپٹی کمشنر مظفرآباد بدر منیر ہیں۔

عینی شاہدین کے مطابق 80 سے زائد لوگوں کو سی ایم ایچ لایا گیا جن میں سے کچھ کو مرہم پٹی کے بعد واپس گھر بھیج دیا گیا جبکہ کئی زخمی ابھی بھی سی ایم ایچ میں موجود ہیں۔

تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے راہ گیر کا نام قاضی اسلام بتایا گیا تاہم یہ تصدیق نہیں ہو سکی کے اس کی ہلاکت آنسو گیس کا شیل لگنے سے ہوئی یا دھویں کے باعث دم گھٹںے سے۔

پولیس اور مظاہرین کے تصادم میں کئی گاڑیوں اور عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا ہے۔

پریس کلب پر پولیس کا دھاوا

اسی دوران درجنوں پولیس اہلکاروں نے مظفرآباد کے سنیٹرل پریس کلب میں داخل ہو کر وہاں پریس کانفرنس کرنے والے پی این اے کے عہدیداروں کو گرفتار کرنے کی کوشش کی جس پر صحافیوں نے مزاحمت کی تو پولیس نے صحافیوں پر بھی لاٹھی چارج اور آنسو گیس کا استعمال شروع کر دیا۔

 پریس کلب انتظامیہ کے مطابق پولیس کے لاٹھی چارج اور شیل لگنے سے کم از کم تین صحافی زخمی ہو گئے جنہیں فوری طور پر ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔

سینٹرل پریس کلب کے صدر طارق نقاش نے ایک ٹویٹ میں اس واقعے پر افسوس کا اظہار کیا۔

 

 

 انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پریس کلب پر پولیس حملے کو ایک سازش قرار دیا جس کا مقصد ’صحافیوں، پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومتوں اور اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلانا ہے۔‘

ان کے بقول: ’یہ طے ہونا چاہیے کہ یہ سازش کس نے کی اور اس کے ذمہ داروں کو سزا ملنی چاہیے۔ ہم اس وقت تک اپنا احتجاج جاری رکھیں گے۔‘

پریس کلب پر حملے کے خلاف آج (بدھ کو) پریس کلب سے مظفرآباد کے آزادی چوک تک احتجاجی مارچ ہو گا جبکہ دیگر شہروں میں بھی صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظمیوں نے احتجاج کی کال دے رکھی ہے۔

اس حملے کے خلاف احتجاج کے طور پر پریس کلب میں پولیس افسران اور اہلکاروں کے داخلے پر پابندی کے علاوہ قانون ساز اسمبلی کے اجلاس اور تمام سرکاری تقریبات کے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا گیا جبکہ پریس کلب انتظامیہ نےاعلان کیا ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم کے علاوہ کسی سے مذاکرات نہیں ہوں گے۔

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان