اب تارکین وطن کو برطانیہ میں صرف عارضی پناہ ملے گی

وزیر داخلہ شبانہ محمود نے اعلان کیا کہ نئی اصلاحات کے تحت کامیاب پناہ گزین اب صرف عارضی طور پر برطانیہ میں رہ سکیں گے اور خاندان کو برطانیہ لانے پر نئی پابندیاں عائد ہوں گی۔

مظاہرین 20 ستمبر, 2024 کو برمنگھم میں نسل پرستی کے خلاف مظاہرے کے دوران پناہ گزینوں کے حق میں پلے کارڈز پکڑے ہوئے ہیں (اے ایف پی)

برطانیہ میں نیا اصلاحی منصوبہ متعارف کرایا جا رہا ہے جس کے تحت ملک میں مستقل پناہ کا نظام ختم کیا جا رہا ہے اور زیادہ تر تارکین وطن کو صرف اتنی دیر کے لیے ’عارضی رہائش‘ دی جائے گی جب تک ان کے اپنے ملک واپس جانا محفوظ نہ ہو جائے۔

برطانوی وزیر داخلہ شبانہ محمود پیر کو ڈنمارک کی طرز پر پناہ کے نظام میں ایک بڑی اور بنیادی تبدیلیوں کا اعلان کریں گی۔

اس منصوبے کے تحت زیادہ تر ایسے پناہ گزین جن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوں گی، انہیں صرف عارضی طور پر برطانیہ میں رہنے کی اجازت ملے گی اور جیسے ہی ان کا ملک محفوظ قرار دیا جائے گا انہیں واپس بھیج دیا جائے گا۔

امکان ہے کہ شبانہ محمود پناہ گزینوں کے خاندانوں کو برطانیہ لانے کے قواعد کو بھی مزید سخت کرنے کا اعلان بھی کریں گی۔

ڈنمارک کے نظام میں اپنے شریک حیات کو بلوانے کے لیے پناہ گزین کی عمر کم از کم 24 سال ہونا ضروری ہے۔

ڈنمارک میں پناہ گزینوں کو عموماً دو سال کے لیے عارضی رہائشی اجازت نامے دیے جاتے ہیں اور مستقل ویزا ملنے کی کوئی ضمانت نہیں ہوتی۔ وہاں مستقل رہائش کے لیے انہیں ڈینش زبان بولنے اور کم از کم تین سال کی ملازمت کا ثبوت دینا ہوتا ہے۔

اگر پناہ گزین اپنے آبائی ملک کا دورہ کریں تو ان کی عارضی رہائش بھی منسوخ کی جا سکتی ہے۔

بتایا جا رہا ہے کہ شبانہ محمود لیبر پارٹی کے اندر جو ارکان پناہ گزینوں کے معاملے پر نرم یا زیادہ ہمدردانہ پالیسی چاہتے ہیں، انہیں پیر کو خبردار کریں گی کہ ’اگر آپ کو یہ سخت پالیسیاں پسند نہیں، تو آگے جو آنے والا ہے وہ آپ کو اور بھی سخت لگے گا۔‘

حکومت پر تارکین وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے مزید سخت اقدامات کا دباؤ ہے کیونکہ ’ریفارم یو کے‘ نامی پالیسی سیاسی طور پر خطرہ بن چکی ہے۔

شبانہ محمود نے جمعے کو کہا کہ وہ ’جدید دور میں ہمارے پناہ گزینوں کے حوالے سے نظام کی سب سے بڑی تبدیلیوں‘ کا اعلان کرنے جا رہی ہیں۔

ایکسر پر پوسٹ کی گئی ایک ویڈیو میں ان کا کہنا تھا: ’ہمیں یہاں غیر قانونی طور پر آنے والوں کی تعداد میں کمی لانی ہے، ہمیں ان لوگوں کو مزید تعداد میں واپس بھیجنا ہے جن کا یہاں رہنے کا حق نہیں۔

’ہم ہمیشہ خطرے سے بھاگنے والوں کو پناہ دینے والا ملک رہیں گے، لیکن ضروری ہے کہ ہم نظم و ضبط اور کنٹرول بحال کریں۔‘

موجودہ نظام میں جن تارکین وطن کو پناہ گزین کا درجہ مل جاتا ہے انہیں پانچ سال کے لیے رہنے کی اجازت دی جاتی ہے اور اس کے بعد وہ مستقل رہائش کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔ مستقل رہائش ملنے کے بعد وہ برطانوی شہریت کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔

وزیر داخلہ نے ستمبر میں اعلان کیا تھا کہ پناہ کے خواہش مندوں کو برطانیہ میں رہنے کا ’حق کمانا‘ ہوگا۔

مستقل رہائش کے لیے درخواست دینے والے تارکین وطن کو اعلیٰ درجے کی انگریزی سیکھنا ہوگی، مجرمانہ ریکارڈ صاف ہونا چاہیے اور انہیں کمیونٹی میں رضاکارانہ کام بھی کرنا ہوگا۔

پیش کردہ تجاویز کے مطابق انہیں ملازمت بھی کرنی چاہیے، نیشنل انشورنس ادا کرنا ہوگا اور حکومتی فوائد نہیں لینے ہوں گے۔

تین سو سے زائد فلاحی اداروں نے جمعے کو شبانہ محمود کو خبردار کیا کہ رضاکارانہ کام کو ’لازمی‘ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔ پناہ گزینوں سے متعلق تنظیموں نے اپنے کھلے خط میں کہا: ’ہم زبردستی کے رضاکاروں کے ساتھ کام نہیں کریں گے۔

’ہم لوگوں کے خود سے دیے گئے وقت کی معلومات وزارت داخلہ کو فراہم نہیں کریں گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ریفیوجی کونسل کے سربراہ ایور سولومون نے اس خیال کی مخالفت کی کہ پناہ گزین حکومت کی سہولیات کی وجہ سے برطانیہ آتے ہیں۔

انہوں نے کہا ’پناہ گزین اپنی جان بچاتے ہوئے مختلف ملکوں کے پناہ کے نظام کا موازنہ نہیں کرتے۔ وہ یہاں اس لیے آتے ہیں کہ ان کا کوئی خاندان پہلے سے موجود ہوتا ہے، انہیں انگریزی کی کچھ سمجھ ہوتی ہے یا ان کے برطانیہ سے پرانے تعلقات ہوتے ہیں جو انہیں اپنی زندگی دوبارہ بنانے میں مدد دیتے ہیں۔‘

ان کے بقول ’حقیقت یہ ہے کہ اکثر لوگ چند سال بعد بھی اپنے ملک واپس جانے کے قابل نہیں ہوتے۔ ماضی کی حکومتیں بھی انہیں حقوق میں کمی کرکے روکنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، لیکن یہ طریقے کبھی کارگر ثابت نہیں ہوئے۔

’یہ خطرناک سفر کو نہیں روکتے، صرف بے یقینی بڑھاتے ہیں اور خاندانوں کو جدا رکھتے ہیں۔‘

پریکسس نامی پناہ گزینوں کے ادارے کی سی ای او منی رحمٰن نے کہا ’تارکین وطن سے بنیادی انسانی حقوق چھین لینا کوئی ‘اصلاح’ نہیں بلکہ ایک خطرناک راستے کا پہلا قدم ہے، خاص طور پر ایسے سیاسی ماحول میں جہاں انتہا پسندانہ نظریات رکھنے والی جماعتیں اگلے انتخابات کے گرد گھوم رہی ہیں۔

’آج نشانہ تارکین وطن ہیں، کل کوئی بھی ہو سکتا ہے جو ان کے لیے سیاسی طور پر رکاوٹ بن جائے۔‘

لیبر حکومت نے پناہ گزینوں کے لیے خاندان کے افراد کو برطانیہ بلانے کی قانونی راہ بھی معطل کر دی ہے۔ برٹش ریڈ کراس سمیت کئی تنظیموں نے اس فیصلے پر تنقید کی اور خبردار کیا کہ اس سے لوگ مزید خطرناک انگلش چینل کراسنگ کی طرف جا سکتے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ