ساہیوال فیصلے پر کیسی حیرانی؟

ہر وہ آدمی جو طاقت کی دوڑ میں ہے اس کا ضمیر سو رہا ہے اور یہ جاگتا جب ہے جب ریٹائر ہو جائیں اور باتوں کے علاوہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں۔

ساہیوال میں پولیس مقابلے میں ہلاک ہونے والوں کے  رشتہ دار سوگ کرتے ہوئے (فائل تصویر: اے ایف پی)

مجھے اس بات پر بہت حیرت ہوتی ہے کہ پاکستان میں ناانصافی پر لوگ حیران کیوں ہوتے ہیں۔ ایک ناکام اور بوسیدہ ریاست سے آپ اور کیا توقع کر سکتے ہیں؟

ساہیوال واقعے کی ویڈیوز اس پوری قوم نے دیکھیں کہ کس طرح معصوم بچوں کے والدین کو دن دہاڑے حکومتی ادارے نے گولیوں کا نشانہ بنایا۔ مگر انسداد دہشت گردی عدالت کے جج نے شواہد نہ ہونے کو بنیاد بنا کر تمام ملزمان کو بری کر دیا۔ جج صاحب یقیناً اس بات کے پابند ہیں کہ وہ شواہد کی بنیاد پر فیصلہ کریں مگر کیا ہمارے پاس عقل سلیم کی بھی کمی تھی۔ میں نے یہ تو سنا ہے کہ قانون محض اندھا ہوتا ہے لیکن اتنا اندھا ہوتا ہے مجھے نہیں معلوم تھا۔

ساہیوال کا واقعہ کسی ایک خاندان کے خلاف نہیں تھا بلکہ وہ ریاست کے خلاف بھی ایک جرم تھا اور یہ ریاست کی ذمہ داری تھی کہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کو قرار واقعی سزا دیتی۔ ایسا نہ کرنے کی صورت میں ریاست اور عوام کے درمیان جو خلیج پیدا ہوتی ہے وہ بالآخر ریاست کے تحلیل ہونے پر ختم ہوتی ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس قسم کے واقعات کو انتہائی سنجیدگی سے دیکھا جائے اور انصاف کو یقینی بنایا جائے۔

اس واقعے کے بعد یہ خبریں بھی آ رہی تھیں کہ خاندان کے لوگوں پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے کہ وہ قصاص کا استعمال کرتے ہوئے اس مقدمے سے دستبردار ہو جائیں۔ ایک غریب خاندان کب تک طاقتور کے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے۔ اس لیے مجھے اس پر حیرانی نہیں ہے کہ انہوں نے یہ راستہ اپنایا۔ مگر ریاست کے خلاف جو جرم ہوا اس کی پیروی کیوں نہ کی گئی؟

کچھ بہت تجربہ کار وکیل عدالت کا یہ کہہ کر دفاع کر رہے ہیں کہ جج شواہد کی غیر موجودگی میں مجرمان کو سزا نہیں دے سکتا۔ مگر جج ایک انسان اور شہری بھی ہے اور جب ہم سب کو یہ معلوم ہے کہ کچھ اداروں کی جانب سے دباؤ، جس کی وجہ سے شواہد جمع کرنا مشکل تھا تو جج کے پاس راستہ یہ بھی تھا کہ اپنے فیصلے میں سپریم کورٹ سے یہ درخواست کرے کہ آئین کے تحت وہ اس مقدمے کو دیکھے اور ریاست کے خلاف ہونے والے اس جرم کی پیروی کرے، اس لیے کہ اس بات کی نشانیاں موجود ہیں کہ ادارے دباؤ ڈال رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مگر ایسا کرنے کے لیے بھی ہمت اور احساسِ ذمہ داری کی ضرورت ہے جو ہمارے ملک کے ہر طبقے میں ناپید ہوتی جا رہی ہے۔ میں آپ کو درجنوں ایسے واقعات بتا سکتا ہوں جہاں جج کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں۔ مشکل یہ بھی ہے کہ جو ان باتوں پر آواز اٹھاتے ہیں اب پر توہین عدالت کے الزامات لگائے جاتے ہیں مگر جو جج عدلیہ اور انصاف کی توہین کر رہے ہیں اس کا کیا کیا جائے؟

اس جمہوریہ میں وزیراعظم فیصلے اور پالیسی میں تبدیلی لانے کی بجائے صحافیوں سے کہتے ہیں کہ اچھی مارکیٹنگ کریں تاکہ عوام خوش ہوں۔ فوجی سربراہ کشمیر نہ بچا سکے مگر امیر ترین لوگوں سے مل کے کاروبار بچانا چاہتے ہیں۔ پچھلے چیف جسٹس ڈیم بنانے میں مصروف تھے اور موجودہ اس بات کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک سپریم کورٹ کے جج کو انصاف کیسے دلوائیں۔

سیاستدان پارلیمان میں سیاست کرنے کی بجائے سڑکوں پر آ کر عوام کی زندگیاں مزید پریشان کرنے میں مصروف ہیں۔ غرض یہ کہ ہر وہ آدمی جو طاقت کی دوڑ میں ہے، اس کا ضمیر سو رہا ہے اور یہ جاگتا جب ہے جب ریٹائر ہو جائیں اور باتوں کے علاوہ کچھ کرنے کے قابل نہ رہیں۔

میری آپ سے یہی درخواست کے کہ ایک نئی ریاست کے لیے کمر بستہ ہو جائیں۔ اب نئی جمہوریہ تعمیر کیے بغیر ہمارا معاشرہ اور ریاست ٹھیک نہیں ہو سکتی۔


اس بلاگ میں تحریر کردہ خیالات مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہیں، ادارے کا ان سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ