آزادی مارچ کے لیے سکھر پر اتنا انحصار کیوں؟

مولانا فضل الرحمٰن اس سے پہلے اعلان کرچکے تھے کہ آزادی مارچ کا آغاز سکھر سے ہوگا، مگر بعد میں مارچ کراچی سے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ تاہم جے یو آئی ف سندھ کے کارکنان کی اکثریت سکھر سے ہی مارچ میں شامل ہو گی۔

جمعیت علما اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن ، جے یو آئی ف سندھ کے  رہنما مولانا راشد محمود سومرو کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس کے دوران (تصویر:  سجاد بلوچ)

جمعیت علما اسلام (فضل الرحمٰن گروپ) کی جانب سے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف اعلان کردہ آزادی مارچ دیگر صوبوں میں مخالفت کے بعد اتوار (27 اکتوبر) کو سندھ سے شروع ہو رہا ہے۔ 

جے یو آئی ایف کے رہنما قاری محمد عثمان کے مطابق کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے شروع ہونے والے مارچ کی قیادت مولانا فضل الرحمٰن خود کریں گے۔ جبکہ جے یو آئی سندھ کے جنرل سیکرٹری مولانا راشد محمود سومرو بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔

سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے پی ٹی آئی مخالف اس آزادی مارچ میں جے یو آئی کو سندھ میں اپنی مکمل حمایت کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی یقین دہانی کروائی ہے کہ صوبے میں کہیں بھی مارچ میں رکاوٹ نہیں ڈالی جائی گی۔

کراچی سے روانہ ہونے کے بعد آزادی مارچ حیدرآباد اور سکرنڈ سے ہوتا ہوا مغرب تک سکھر پہنچے گا۔ جہاں سے جے یو آئی کے کارکنان کی ایک بہت بڑی تعداد اسلام آباد جانے کے لیے مارچ میں شریک ہوجائے گی۔

گذشتہ ہفتے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں وفاقی وزیر برائے آبی وسائل فیصل واوڈا نے جے یو آئی ف کے رہنما مولانا راشد محمود سومرو کو چیلنج کیا کہ ’وہ لکھ کر دیں کہ وہ اسلام آباد آئیں گے اور حکومت کی چھٹی کرائیں گے۔‘

 جس پر مولانا راشد محمود سومرو نے اعلان کیا کہ وہ لکھ کر دیتے ہیں کہ وہ 15 لاکھ لوگ اسلام آباد لائیں گے اور صرف سندھ سے چار لاکھ سے زائد لوگ آئیں گے۔ انہوں یہ بات لکھ کر سکرین پر بھی دکھائی جس میں یہ بھی لکھا کہ اگر سندھ سے وہ چار لاکھ لوگ نہ لاسکے تو وہ آئندہ لاڑکانہ سے الیکشن نہیں لڑیں گے۔

مولانا راشد محمود سومرو کے اس اعتماد کے باعث مولانا فضل الرحمٰن اس سے پہلے اعلان کرچکے تھے کہ پی ٹی آئی مخالف آزادی مارچ کا آغاز سکھر سے کیا جائے گا، مگر بعد میں مارچ کراچی سے شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ کراچی سے آغاز کے باجود جے یو آئی سندھ کے کارکنان کی اکثریت سکھر سے ہی مارچ میں شامل ہو گی۔ خیبرپختون خوا اور بلوچستان میں مارچ سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن کی ممکنہ گرفتاری کے باعث وہ سکھر آگئے جہاں انہوں نے مارچ کے شروع ہونے تک قیام کیا۔

پورے ملک کو چھوڑ کر سکھر ہی کیوں؟

سکھر شمالی سندھ کا ثقافتی اور سیاسی مرکز سمجھا جاتا ہے۔ شمالی سندھ آٹھ اضلاع سکھر، گھوٹکی، لاڑکانہ، شکارپور، جیکب آباد، خیرپور، قمبر شھدادکوٹ اور کشمور پر مشتمل ہے اور ان اضلاع میں جے یو آئی (ف) کی انتہائی مضبوط موجودگی ہے۔ اس موجودگی کی ابتدا مذہبی کام سے ہوئی تھی۔

صحافی اور محقق ضیاء الرحمٰن کے مطابق سرکاری طور پر تو کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے مگر آزادانہ اندازے کے مطابق صرف شمالی سندھ کے آٹھ اضلاع میں جے یو آئی (ف) کے ایک ہزار سے زائد دینی مدارس ہیں۔

قیامِ پاکستان کے وقت سکھر شہر میں دریائے سندھ کے کنارے موجود ایک مدرسہ و مسجد ’منزل گاہ‘ بھی اس وقت جے یو آئی ف کے کنٹرول میں۔ یہ وہی مقام ہے جہاں ہندو-مسلم فسادات ہوئے تھے اور جن کا ذمہ دار سندھی قوم پرست رہنما سائیں جی ایم سید کو ٹھہرایا گیا تھا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ شمالی سندھ میں جے یو آئی ف کے زیادہ تر مدارس ہائی ویز یا پھر شہروں کے داخلی راستوں پر بنائے گئے ہیں اور مرکزی قیادت کے اعلان پر کچھ ہی دیر میں ان مدارس میں موجود طلبہ کارکنان ہائی وے اور شہروں کو جانے والے راستوں کو بلاک کرسکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ یہ طلبہ کراچی کی بندرگاہوں سے آنے والے سامان کی پورے ملک کو ترسیل کے لیے استعمال ہونی والی قومی شاہراہ تک کو بھی بند کرسکتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ سندھ کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی کو ابھی تک نہیں ہے۔

سکھر میں جمعیت علما اسلام کا ایک مدرسہ (تصویر: سجاد بلوچ)


ایک ہزار مدارس کے تعمیر کے بعد ملنے والی کارکنان کی قوت بعد میں سیاسی قوت میں ڈھال دی گئی۔ جس کی واضح مثال حالیہ ضمنی الیکشن میں دیکھی گئی۔ جولائی 2019 میں شمالی سندھ کے ضلع گھوٹکی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 205 پر ضمنی انتخاب کے دوران جے یو آئی ف نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کی حمایت کی تو نشست پی پی پی نے جیتی مگر جب 18 اکتوبر کو لاڑکانہ میں سندھ اسمبلی کے حلقے پی ایس 11 پر ہونے والے ضمنی الیکشن میں جے یو آئی نے پی پی پی کے مدِمقابل جی ڈی اے کے امیدوار معظم علی عباسی کی حمایت کی تو پی پی پی کو اپنے سیاسی گڑھ میں تاریخی شکست نصیب ہوئی۔

سیاسی تجزیہ نگار اور سندھ ٹی وی کے اینکر پرسن فیاض نائچ کے مطابق جے یو آئی ف اس وقت شمالی سندھ میں پیپلز پارٹی کے بعد دوسری بڑی سیاسی قوت بن کر ابھری ہے۔

پی پی پی کے مقابلے میں جے یو آئی (ف) کا ووٹ بینک شمالی سندھ میں بڑھتا جا رہا ہے۔ بقول ضیاء الرحمٰن: ’اگرچہ جے یو آئی ف نے عام انتخابات میں دیہی سندھ سے کوئی کامیابی حاصل نہیں کی ہے مگر اس کا ووٹ شمالی سندھ کے اضلاع خاص طور پر لاڑکانہ، شکارپور اور گھوٹکی میں بتدریج بڑھ رہا ہے۔‘

جے یو آئی ف سندھ میں سیاسی قوت کیسے بنی؟

ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی ہو، بے نظیر بھٹو کی یا پھر بلاول بھٹو کی موجودہ پیپلز پارٹی، سندھ میں اقتدار میں آنے کے بعد صوبے کا وزیر اعلی زیادہ تر شمالی سندھ سے ہی چنا گیا۔ سندھ میں حکومت بنانے کے بعد پیپلز پارٹی نے ہمیشہ سندھ کابینہ میں 60 فیصد سے زائد وزرا شمالی سندھ سے ہی لیے۔

سندھ میں دو اقسام کے سندھی بستے ہیں۔ سماٹ سندھی جن کی اکثریت جنوبی سندھ یا ذیلی سندھ کے اضلاع میں مقیم ہے اور دوسری قسم بلوچ نژاد سندھی جو شمالی سندھ میں اکثریت رکھتے ہیں اور آج بھی ان میں قبائلی رواج موجود ہیں۔ سندھ میں کاروکاری کے اکثر کیس بھی شمالی سندھ کے قبائلی لوگوں میں رپورٹ ہوتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شمالی سندھ میں بلوچ نژاد سندھی قبائل کی موجودگی میں سماٹ کمزور سمجھے جاتے ہیں تو جے یو آئی ف سندھ کے موجودہ رہنما مولانا راشد محمود سومرو کے والد مولانا خالد محمود سومرو، جو ایک سماٹ سندھی تھے، نے بلوچ نژاد قبائل کے سرداروں کے سامنے ایک سماٹ قبائلی سرداری نظام بنانے کے بجائے ایک سیاسی شخصیت بننے پر ترجیح دی۔ 

سندھ میں پی پی پی کے اقتدار میں اکثریت سے شریک شمالی سندھ کے ان قبائلی سرداروں نے اقتدار میں رہنے کے باجود گراس روٹ سطح پر اپنے حلقوں میں بنیادی ترقیاتی کام کرانے کے بجائے قبائلی لڑائی کو فروغ دیا۔

آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے بعد پاکستان فوج کی جانب سے آپریشن ضرب عضب کے دوران کراچی کے بعد شمالی سندھ میں آپریشن کرنے سے پہلے ان اضلاع میں ڈاکو راج قائم تھا اور یہ ڈاکو قومی شاہراہ پر لوٹ مار کرنے کے ساتھ اغوا برائے تاوان، بھتہ لینے اور گاڑیاں چھیننے میں شہرت رکھتے تھے۔شمالی سندھ پر تحقیق کرنے والے ماہرین کے مطابق ان ڈاکوؤں کو قبائلی سردار اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بھی استعمال کرتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خیرپور ضلع کی ایک این جی او بھٹائی سوشل واچ اینڈ ایڈوکیسی کی ایک تحقیق کے مطابق 2010 سے 2014 کے درمیان سندھ میں 1566 قبائلی لڑائیاں لڑی گئیں۔ ان لڑائیوں میں قبائلی سرداروں کا ہاتھ ہونے کے باعث پولیس بھی کمزوروں کی داد رسی نہیں کرتی تھی۔ مگر جے یو آئی ایک سیاسی پارٹی کے طور پر اُن کمزور لوگوں کی ساتھی بنی، جو اس جماعت کی مقبولیت کا ایک سبب ہے۔ ڈاکوؤں سے خائف اور پی پی پی کی خراب کارکردگی پر ناراض عام لوگوں نے جے یو آئی ف کو اپنا آخری نجات ہندہ سمجھا۔

صحافی اور محقق ضیاء الرحمٰن کے مطابق: ’جے یو آئی ف دیہی سندھ میں اپنا وجود قیامِ پاکستان سے پہلے سے رکھتی ہے اور جنرل ضیا الحق کے خلاف ایم آر ڈی موومنٹ میں اس نے سندھ سے ایک فعال کردار ادا کیا ہے مگر حالیہ سالوں میں یہ مذہبی جماعت پیپلز پارٹی کی ایک متبادل جماعت کے طور پر ابھر کر سامنے آرہی ہے۔‘

ضیاء الرحمان نے مزید کہا کہ ’جے یو آئی ف ملک کے دیگر حصوں کی تنظیم سے مختلف طرز پر دیہی سندھ میں اپنی سیاست کرتی ہے جہاں وہ قوم پرستی اور مذہب کا امتزاج کرکے دیہی سندھ کی ایک مضبوط قوت بن کر ابھری ہے۔ یہ سندھی قوم پرستوں اور سول سوسائٹی کے ساتھ دیہی سندھ کے ایشوز پر یکساں موقف اختیار کرتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ قوم پرست جماعتیں یا سول سوسائٹی جے یو آئی ف کے دیگر رجعت پسندانہ اقدامات کی مخالفت کرنے کی بجائے ان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ ان اقدامات میں دیہی سندھ میں مدرسے کھولے جانے کی بھرمار سے لے کر جبری تبدیلی مذہب کے بل کی مخالفت قابلِ ذکر ہے۔‘

بقول فیاض نائچ: ’صرف پی پی پی کی نہیں بلکہ پچھلی دو دہائیوں میں، حتیٰ کہ پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں بھی سرکار بنیادی مسائل حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اس وجہ سے بھی لوگ ایک نئی قوت کی طرف طرف دیکھنے لگے۔ اس کے علاوہ خالد محمود سومرو کی شخصیت نے جے یو آئی ف کی شمالی سندھ میں سیاسی قوت بننے میں اہم کردار ادا کیا۔ وہ اپنے طالب علمی کے دور میں جے یو آئی کے طلبہ ونگ میں تھے اور بعد میں انہوں نے مذہبی سیاست اور قوم پرستی کو ملا دیا۔ سندھ کے ہر معاملے، چاہے وہ کالا باغ ڈیم ہو، غیر ملکی تارکینِ وطن کی سندھ میں آبادکاری ہو یا کوئی بھی سندھ دشمن منصوبہ ہو، سومرو ہمیشہ قوم پرستوں کے ساتھ کھڑے رہے اور یہ ایک اور سبب تھا ان کی مقبولیت کا۔‘

2010 میں آنے والے خطرناک سیلاب نے شمالی سندھ کے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کردیا تھا اور وہ ریلیف کیمپوں میں آگئے تھے۔ سیلاب کے بعد لوگ جب خوراک کے لیے پریشان تھے تو بچوں کی تعلیم کا کیا سوچتے۔ جے یو آئی ف نے سیلاب سے متاثرہ خاندانوں کے بچوں کو مدارس میں داخل کیا اور نہ صرف دینی تعلیم دی بلکہ انہیں رہائش اور کھانا بھی دیا، جس سے وہ خاندان سیاسی طور پر جے یو آئی سے جڑ گئے۔ آج شمالی سندھ میں جے یو آئی کے نوجوان کارکنوں میں اکثریت سیلاب کے دوران ان مدارس میں داخل ہونے والوں کی ہے۔

سکھر میں جمعیت علما اسلام کے ایک مدرسے کا مرکزی دروازہ (تصویر: سجاد بلوچ)


اس کے علاوہ شمالی سندھ کے دیوبند طاقتور پیروں کی بھی جے یو آئی ف کو حمایت حاصل ہے۔ درگاہ ہالیجوی شریف پنوعاقل کے سجادہ نشین عبدالقیوم ہالیجوی جے یو آئی کے مرکزی نائب امیر ہیں اور ان کے عقیدت مند بھی سیاسی طور پر جے یو آئی کے سپورٹر ہیں۔

سکھر کے صحافی یٰسین جونیجو کے مطابق شمالی سندھ کے ضلع قمبر شہداد کوٹ میں واقع معروف گدی بير شريف کے مریدوں کی اکثریت بھی جے یو آئی ف کے ساتھ ہے۔ اس درگاہ کے سجادہ نشین مولانا عبدالعزیز کے والد مولانا عبدالکریم جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے والد مولانا مفتی محمود کی وفات کے بعد جے یو آئی کے مرکزی امیر بنے اور ان کے بعد مولانا فضل الرحمٰن جے یو آئی کے امیر بنے تھے۔

اس کے علاوہ شمالی سندھ کے ایک اور ضلع شکارپور کی صوفی درگاہ امروٹ شریف کے پیر مولانا سراج احمد امروٹی بھی جے یو آئی سندھ کے رہنما ہیں اور ان کے عقیدت مند جے یو آئی ف کے ووٹر ہیں۔

اس صورت حال میں جے یو آئی ف کی پی ٹی آئی حکومت مخالف مارچ میں شرکت کے لیے سندھ سے چار لاکھ کارکن لانے کے مولانا راشد محمود سومرو کے دعوے کو غیر سنجیدہ نہیں لیا جاسکتا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان