افغانوں کو پاکستانی ویزے کے حصول میں ’دائمی‘ مشکلات

پاکستانی سفارت خانہ روزانہ 1500 ویزے جاری بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی قطاریں دنوں تک لگی رہتی ہیں۔

’ہمیں کابل کے پاکستانی سفارت خانے میں بہت مشکلات کا سامنا ہے۔ یہ میری چوتھی رات ہے، مجھے ابھی تک ویزا نہیں ملا۔ یہاں کچھ لوگ ہیں جو 35 سو سے چار ہزار افغانی لے کر مدد کر دیتے ہیں لیکن انہیں ہماری حالت نہیں دکھائی دے رہی۔ وہ صرف انہیں کی مدد کرتے ہیں جو انہیں پیسے دیتے ہیں۔‘

افغان نوجوان احمد ولی نے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستانی سفارتخانے کے باہر موجود لوگ ’رشوت‘ لے کر ویزا دلوانے میں مدد کرتے ہیں۔

تاہم پاکستانی حکام سفارتی خدمات میں بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں۔

کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانہ افغان شہریوں کو پاکستان جانے کے لیے ویزا جاری کرتا ہے۔ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جہاں افغان شہریوں کی ایک بڑی تعداد کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ صرف کابل ہی نہیں بلکہ دوسرے صوبوں کے لوگ بھی کابل ہی سے ویزا حاصل کرنے آتے ہیں۔ اس کی وجہ دوسرے صوبوں کا غیر محفوظ ہونا ہے۔

واضح رہے کہ کابل میں موجود پاکستانی سفارت خانے کا ویزا سیکشن گذشتہ روز سے بند کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی سفارت خانے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق سکیورٹی وجوہات کی بنا پر سفارت خانے کے قونصلر دفتر کو تاحکم ثانی بند کیا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس بندش کی بڑی وجہ کابل میں پاکستانی سفارت خانے کے عملے کے ساتھ ’ہراسانی‘ کے واقعات کا پیش آنا ہے۔

یہ سب تو حالیہ دنوں میں کی بات ہے مگر سینکڑوں افغان شہریوں کی جانب سے تو روزانہ کی بنیادوں پر پاکستانی ویزا حاصل کرنے کے لیے درخواست دی جاتی ہے۔ پاکستانی سفارت خانہ روز 15 سو ویزے جاری بھی کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ویزا حاصل کرنے کے خواہش مند افراد کی قطاریں دنوں تک لگی رہتی ہیں۔

ویزا کی بڑھتی درخواستوں کی بڑی وجوہات علاج، رشتہ داروں سے ملاقات، تعلیم یا کاروبار بتائی جاتی ہیں۔

پاکستان میں علاج افغانوں کی ایک بڑی تعداد کے لیے ترجیحی حیثیت رکھتا ہے جس کی وجہ افغانستان کے ہسپتالوں میں طبی سازوسامان، پیشہ ور ڈاکٹروں اور ادویات کا نہ ہونا ہے۔

ویزا درخواستوں کی تعداد میں اضافے کی ایک اور وجہ پاکستان میں بھارت اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں علاج کا سستا ہونا بھی ہے۔

سفارتخانے کے باہر رات کے پچھلے پہر بیٹھے ہوئے ضعیف العمر احمد آغا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مایوسی ظاہر کی اور کہا کہ ’میں نے ویزے کے لیے درخواست دی تھی۔ میں بیمار ہوں اور میں نے رات یہیں گزاری ہے۔ایک کہتا ہے وہاں جاؤ۔ دوسرا کہتا ہیں یہاں جاؤ کوئی اور کہیں اور جانے کو کہتا ہے۔ میں اس لیے واپس آگیا۔ میں نے اپنا ارادہ بدل لیا ہے۔ میں نے پوری رات ٹھنڈ میں گزاری ہے۔ میں بیمار ہوں۔ میں وہاں گیا تو انہوں نے مجھے باہر نکال دیا۔ میں نے سوچا اب بہت ہو چکا ہے اب بس۔‘

یہ سفارت خانہ ریڈ زون کے بجائے ایک عام علاقے میں موجود ہے جس کی وجہ سے قریب موجود رہائشیوں کے لیے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ سفارت خانے کو ویزا جاری کرنے کے لیے ویزہ فارم، تصاویر اور پاسپورٹ کی ضرورت ہے۔

درخواست دینے والوں میں مرد، خواتین اور نوجوان افغان سب شامل ہیں۔

دونوں ممالک کی سرحد جڑی ہونے کی وجہ سے ویزا کی طلب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ گو کہ ایک ماہ میں 53 ہزار ویزے جاری کرنا ایک مشکل کام ہے لیکن اگر ملازمین کی تعداد بڑھا دی جائے تو ایسا جلد ممکن ہو بھی سکتا ہے۔ اس کے علاوہ افغان حکومت کو کرپشن میں ملوث عناصر پر بھی قابو پانا ہوگا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا