میرے پاس تم ہو: ’جنہیں برا لگے نہ دیکھیں‘

اگر معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا ہوتا تو یہ ڈرامہ چل نہ رہا ہوتا، نہ ہی سوشل میڈیا پر موضوعِ گفتگو ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ لوگ اسے پسند کر رہے ہیں: عدنان صدیقی کا خصوصی انٹرویو

پاکستانی ڈرامہ اندسٹری کے لیے گذشتہ چند ہفتے بہت اہم تھے، جب آئی ایس پی آر کے تعاون سے پیش کیا گیا ڈرامہ ’عہدِوفا‘ اور حمزہ علی عباسی کا ڈرامہ ’الف‘ نشر ہونا شروع ہوئے تاہم  اے آر وائے ڈیجیٹل کے ڈرامے ’میرے پاس تم ہو‘ نے بازی مار لی۔

’میرے پاس تم ہو ‘گزشتہ کئی ہفتوں سے یو ٹیوب ٹرینڈز میں پہلے نمبر پر ہے جبکہ ہفتے کو اس کی قسط نشر ہوتے ہی یہ ٹوئٹر پر بھی پہلے نمبر پر ٹرینڈ کرنا شروع ہوجاتا ہے۔

اس ڈرامے میں مرکزی کردار ادا کرنے والی مہوش (عائزہ خان) اپنے شوہر دانش (ہمایوں سعید) کو دولت کی خاطر چھوڑ کر اپنے باس شہوار (عدنان صدیقی) کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ اس نسبتاً غیر روایتی کہانی کی وجہ سے عوام میں اس کی مقبولیت اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر کچھ افراد اس کے بارے میں کافی سخت الفاظ بھی استعمال کررہے ہیں۔

اس ڈرامے کے ایک اور مرکزی کردار شہوار یعنی عدنان صدیقی سے انڈپینڈنٹ اردو نے خصوصی طور پر بات کی اور پوچھا کہ وہ اس بارے میں کیا سوچتے ہیں؟

عدنان صدیقی نے کہا کہ وہ اس عوامی پذیرائی پر خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کیونکہ ایک بہت طویل عرصے بعد کوئی پاکستانی ڈرامہ اتنا مقبول ہوا ہے اور یہ بات وہ دعوے کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ  اےآر وائے ڈیجیٹل کی تاریخ کا سب سے کامیاب ڈرامہ ہے۔ ان کے مطابق آخری مرتبہ ڈرامہ ’ہم سفر‘ اتنا مقبول ہوا تھا، تاہم وہ ہم ٹی وی پر نشر ہوتا تھا۔

عدنان صدیقی کے مطابق اس ڈرامے میں انہوں نے منفی کردار اس لیے کیا، کیونکہ وہ ایک اداکار ہیں اور وہی کردار کرتے ہیں جو ان کی سمجھ میں آتا ہے۔ انہوں نے اپنی ٹیم کو سراہتے ہوئے کہا کہ ان کی ٹیم بہت اچھی ہے جس میں ہدایت کار ندیم بیگ ہیں، مصنف خلیل الرحمٰن قمر اور پروڈیوسر ہمایوں سعید ہیں، جو خود ڈرامے میں اداکاری بھی کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ ’ہمایوں چونکہ ایک بہت ہی منجھے ہوئے اداکار ہیں، تو ان کے سامنے مجھے بہترین کام کرنا ہی تھا جبکہ عائزہ خان بھی اس ڈرامے میں بہت کمال کا کام کر رہی ہیں۔‘

عدنان صدیقی نے اس ڈرامے پر ہونے والی نکتہ چینی اور کڑی تنقید کے بارے میں کہا کہ ’معاشرے میں ایسے لوگ ہوتے ہی ہوں گے نا کیونکہ جو بھی عکاسی کی جاتی ہے وہ معاشرے کو دیکھ کر ہی کی جاتی ہے، پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتی۔ ایسی خواتین بھی ہوتی ہیں جو مادہ پرست ہوتی ہیں اور ایسے مرد بھی ہوتے ہیں جو انہیں ورغلاتے ہیں تو اس طرح ہر ایک برابر نہیں ہوتا۔‘

تاہم انہوں نے واضح کیا کہ بطور اداکار یہ ان کی، ہمایوں سعید کی اور عائزہ خان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے کردار کو بہترین انداز میں پیش کریں اور اپنے کام سے انصاف کریں۔

عدنان نے کہا: ’اب جن کو یہ ڈرامہ برا لگ رہا ہے تو وہ نہ دیکھیں اور اس کے بارے میں جو بھی برا لکھ سکتے ہیں وہ لکھیں۔ اب جس طرح یہ کردار لکھے گئے ہیں، لوگ انہیں اسی طرح سے لیں گے تو ٹھیک ہے ورنہ دوسری طرح سے لیا تو یہ بات بہت دور تک جائے گی۔‘

پاکستانی معاشرے کے حساب سے کیا یہ ڈرامہ وقت سے پہلے تو نہیں نشر ہوا؟ اس سوال پر عدنان صدیقی نے کہا کہ ’اگر معاشرے نے اسے قبول نہیں کیا ہوتا تو یہ ڈرامہ چل نہ رہا ہوتا، نہ ہی سوشل میڈیا پر موضوعِ گفتگو بنا ہوتا۔ اس سے ظاہر ہے کہ لوگ اسے پسند کر رہے ہیں، یہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ بھی کر رہا ہے تو اس کی معاشرے میں قبولیت آخر ہے تو کر رہا ہے نا! چند لوگ اس ڈرامے کی کامیابی پر داغ تو نہیں لگاسکتے ہیں نا!‘

اس سوال ہر کہ کیا یہ ڈرامہ ’ہم سفر‘ اور ’اڈاری‘ کی طرح پاکستانی ٹی وی ڈراموں کی نئی جہت طے کرے گا؟ عدنان صدیقی نے کہا کہ ہر ڈرامہ اپنے وقت کے حساب سے ہوتا ہے۔ وہ ڈرامے اپنے وقت میں بہت بڑے تھے اور یہ آج کا بہت بڑا ڈرامہ ہے، جس میں سوشل میڈیا کا اثر بھی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو یہ پاکستانی ڈرامے کی صنعت کے لیے بہت اچھا ہے کہ ہمیں مختلف النوع قسم کے ڈرامے مل رہے ہیں، جس کے ساتھ ساتھ عوام میں شعور بھی آرہا ہے اور وہ اسے تسلیم بھی کر رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی