’لمبا ہوں، خوبصورت ہوں اس لیے جنسی ہراسانی کی‘

جرائم کے حوالے سے سینیئر لیکچرر اور سابق پولیس افسر جان مانکٹن سمتھ نے ملزم رچرڈ کے بیان کی مذمت کی اور متاثرہ شخص کو ہی جرم کا سبب قرار دینے والی روش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’اس مختصر سے جملے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔‘

مجرم نے پولیس کو بتایا کہ ’یہ خاتون کا اپنا قصور ہے۔ انہوں نے خود کو ڈھانپنے کے لیے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ یہ میرا قصور نہیں ہے اور انہیں بھی اس کی شکایت نہیں ہے کیوں کہ میں لمبا اور خوبصورت شخص ہوں۔ خواتین میرا پیچھا کرتی ہیں۔ انہیں خود کو ڈھانپنا چاہیے تھا۔‘ (سوشل میڈیا)

جنسی ہراسانی میں ملوث آئرلینڈ کے ایک شہری نے اپنے جرم کا قصور متاثرہ خاتون کے سر تھوپتے ہوئے کہا کہ انہیں اپنے جسم کو ڈھانپنا چاہیے تھا۔ انہوں نے اپنے دفاع میں یہ دلائل بھی دیے کہ وہ دراز قد اور خوبصورت شخص ہیں۔

رچرڈ ڈنکین نے فروری 2017 میں ڈبلن کے ایک نائٹ کلب سے نکلنے والی خاتون کے ساتھ دراز دستی کی تھی۔

آئرش انڈپینڈینٹ کے مطابق متاثرہ خاتون 20 سال کی تھیں اور میڈیکل سٹوڈنٹ تھیں جنہیں رچرڈ نے اسی شام سیٹیاں بجا کر تنگ کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ اتنی خوفزدہ ہوئیں کہ وہ انہیں کچھ بھی نہ کہہ سکیں۔  

خاتون نے بتایا: ’انہوں نے میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے مجھ سے کہا کہ تم اچھی دکھائی دے رہی ہو، اسی طرح کی اور دوسری باتیں بھی کیں۔‘ چند گھنٹوں بعد وہ ان سے دوبارہ اس وقت ٹکرایا جب وہ اپنی ایک دوست کے ہمراہ نائٹ کلب سے لوٹ رہی تھیں۔ ’اس  نے مجھے کولہوں سے جکڑ لیا۔‘

متاثرہ خاتون کا مزید کہنا تھا: ’میں اسے صرف اتنا ہی کہہ پائی کہ مجھ سے دور ہو جاؤ۔ میں سٹ پٹا گئی تھی۔ میں اس سب کی امید نہیں کر رہی تھی۔ اس عمل نے مجھے بہت افسردہ کر دیا تھا۔‘

معاملے کی تحقیق کرنے والی ڈیٹیکٹیو گرینڈا اورلا موینحان کا کہنا ہے: ’میں نے اسے سرخ لباس میں خاتون کو پیچھے سے پکڑے ہوئے دیکھا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’رچرڈ نے ہمیں دھمکاتے ہوئے کہا کہ ہم وہاں سے دفع ہو جائیں کیوں کہ آئرلینڈ پولیس سروس صرف ارب پتی سرمایہ کار ڈینس اوبریئن کے لیے کام کرتے ہیں۔‘

مجرم نے پولیس کو بتایا کہ ’یہ خاتون کا اپنا قصور ہے۔ انہوں نے خود کو ڈھانپنے کے لیے کچھ نہیں پہنا ہوا تھا۔ یہ میرا قصور نہیں ہے اور انہیں بھی اس کی شکایت نہیں ہے کیوں کہ میں لمبا اور خوبصورت شخص ہوں۔ خواتین میرا پیچھا کرتی ہیں۔ انہیں خود کو ڈھانپنا چاہیے تھا۔‘

متاثرہ خاتون نے پولیس سے اپنی شکایت واپس لیتے ہوئے کہا کہ مقدمے بازی کے لیے ان کے پاس وقت نہیں ہے کیوں کہ یونیورسٹی ان کی پہلی ترجیح ہے۔

تاہم خاتون جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، کے فراہم کردہ شواہد کی بِنا پر 42 سالہ رچرڈ کو جنسی ہراسانی کے لیے مجرم قرار دے دیا گیا جس کے خلاف انہوں نے اپیل بھی نہیں کی۔

جرائم کے حوالے سے سینیئر لیکچرر اور سابق پولیس افسر جان مانکٹن سمتھ نے رچرڈ کے بیان کی مذمت کی اور متاثرہ شخص کو ہی جرم کا سبب قرار دینے والی روش پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’اس مختصر سے جملے نے کئی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔‘

یونیورسٹی آف گلوسٹر سے وابستہ سمتھ نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’پولیس افسروں نے خود مقدمے کی پیروی کر کے ایسے مردوں کو یہ درست پیغام بھیجا ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی رضامندی کے بغیر انہیں چھو نہیں سکتے۔ کسی کے کپڑوں سے رضامندی ظاہر نہیں ہو جاتی۔‘

ڈاکٹر مانکٹن سمتھ نے مزید کہا: ’اس وقت خاتون کو دو طریقوں سے دھمکایا گیا تھا۔ اس احساس کے ساتھ کہ وہ جرم کے خلاف کوئی بیان دینا نہیں چاہتی تھی۔ خواتین کو عوامی پر محفوظ محسوس کرنا چاہیے۔ اس طرح ڈرانا یا دھمکانا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ خواتین کو ان حملوں کے لیے آسانی سے قصوروار ٹھہرایا جا سکتا ہے جس سے ان کے خلاف جارحیت یا مزید حملوں کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ریپ کے معاملات میں بھی اسی نوعیت کے دفاعی بیانات دیے جاتے ہیں جو ناقابل قبول ہیں۔ ایسا سلوک قابل قبول نہیں ہے اور اس شخص کو قصوروار ماننا چاہیے تھا اور ان کی حرکتوں پر غور کرنا چاہیے تھا۔ متاثرہ شخص پر الزام لگانے سے اس طرح کے جرائم کا خطرہ کم نہیں ہوتا بلکہ اس سے اس میں اضافہ ہوتا ہے۔

رچرڈ ایک ہفتے تک تحویل میں رہنے کے بعد مقدمے کی سماعت کے دوران غائب ہو گئے تھے لیکن انہیں پھر سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔

ڈبلن کی عدالت کے جج نے رچرڈ کو ضمانت پر رہا کر دیا ہے تاہم انہیں آئندہ برس سزا سنائی جائے گی۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ