حلف نامہ انڈیمنٹی بانڈ سے بھی سخت ہے: اٹارنی جنرل

اٹارنی جنرل انور منصور کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے وفاقی کابینہ کی شرائط برقرار رکھی ہیں اور شریف برادران نے حلف نامہ دے کر خود کو عدالت کے پاس گروی رکھ دیا۔

اگر نواز شریفک علاج کے بعد واپس نہیں آئے تو صرف حکومت کے  نہیں بلکہ عدالت کے بھی مجرم ہوں گے: بیرسٹر شہزاد اکبر(اے ایف پی)

حکومت ِ پاکستان کے اٹارنی جنرل انور منصور خان نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کو حلف نامہ جمع کرانے کے بعد بیرون ملک سفر کی اجازت دینے کے عدالتی حکم کو حکومت کی جیت قرار دیا ہے۔

لاہور ہائی کورٹ نے ہفتے کو  شہباز شریف کی ایک درخواست پر تفصیلی دلائل سننے کے بعد  نواز شریف کوچار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دے دی تھی۔

جسٹس علی باقر  نجفی اور جسٹس سردار احمد نعیم پر مشتمل بینچ نے شریف برادران کی جانب سے علاج کے بعد وطن واپسی کی یقین دہانی پر مبنی حلف نامہ جمع کرائے جانے پر  یہ بھی کہا کہ طبی رپورٹس کی بنیاد پر ان کے بیرون ملک قیام میں توسیع ہو سکے گی۔

اٹارنی جنرل نے اتوار کو وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر کے ساتھ مشترکہ ایک پریس کانفرنس کی۔

پریس کانفرنس میں منصور علی خان نے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کا عبوری فیصلہ دیکھ کر لگتا ہے کہ وفاقی کابینہ کی شرائط  برقرار رکھی گئی ہیں۔

وفاقی کابینہ نے گذشتہ منگل کو ہفتہ وار اجلاس میں نواز شریف کے بیرون ملک علاج کے غرض سے جانے پر غور کرنے کے بعد فیصلہ کیا تھا کہ انہیں صرف ایک مرتبہ  چار ہفتوں کے لیے بیرون ملک جانے دیا جائے۔

اٹارنی جنرل نے دعویٰ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ نے ان کے لیے وہی شرائط رکھی ہیں جو کابینہ کا فیصلہ تھا۔’ عدالت نے واضح کردیا کہ کابینہ کافیصلہ ماننےکےبعد ہی  نواز شریف بیرون ملک جائیں  گے۔‘

انہوں نے دعویٰ کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ در اصل انڈیمنٹی بانڈ سے زیادہ سخت  ہے اورنواز شریف اور شہباز شریف خود کو عدالت کے پاس گروی رکھ دیا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منصور علی خان نے بتایا کہ عدالتی فیصلہ آنے کے ساتھ ہی چار ہفتے کا وقت شروع ہو چکا ہے اور جب مقررہ وقت ختم ہو جائے گا تو انہیں عدالت سے توسیع کے لیے جانا پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر نواز شریف علاج کے بعد واپس نہ آئے  تو توہین عدالت کا قانون لگے گا۔ ’جنوری میں یہ کیس دوبارہ لگے گا اور یہ سارے معاملات دوبارہ دیکھے جائیں گے کہ کیا وہ آ نہیں سکتے یا نہ آنے کا بہانہ کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے  الزام لگایا کہ شریف برادران کا ٹریک ریکارڈ ٹھیک نہیں اورعدالت کو یقین نہیں تھا کہ یہ اصلی میڈیکل رپورٹ بھیجیں گےبھی یانہیں۔

اٹارنی جنرل نے ایک سوال کے جواب میں واضح کیا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم نامے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کا فیصلہ وفاقی کابینہ کرے گی۔

دوسری جانب، بیرسٹر شہزاد اکبر نے واضح کیا کہ  لاہورہائی کورٹ نے انڈیمنٹی بانڈ کی شرط کو معطل کیا ہے اور ابھی اس کی سماعت ہونی ہے۔ ’ہمیں ان کی واپسی کی یقین دہانی  چاہیے تھی جو حلف نامے کی صورت میں ہمیں مل گئی۔ ‘

انہوں نے کہا اگر اب نواز شریف علاج کے بعد واپس نہ آئے تو صرف ہمارے نہیں بلکہ عدالت کے بھی مجرم ہوں گے۔

شہزاد اکبر نے کہا ہائی کورٹ نے نواز شریف اور شہباز شریف دونوں سے حلف نامہ لیا ہے۔’ہم نے انڈمنٹی بانڈ شہباز شریف سے مانگا تھا ناکہ نواز شریف سے۔‘

’عدالتی فیصلے کی من مانی تشریح توہین عدالت ہے‘

ن لیگ کی ترجمان مریم اورنگزیب نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اٹارنی جنرل انور منصور اور معاون خصوصی شہزاد اکبر عدالتی فیصلےکی من مانی تشریح کر کے ’توہین عدالت‘ کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا آج کی پریس کانفرنس سے لگتا ہے انہیں عدالتی فیصلہ قبول نہیں۔

مریم  اورنگزیب نے مزید کہا ’انشا اللہ ن ۔ لیگ نواز شریف کے صحت یاب ہونے کے بعد وطن واپسی پر شاندار استقبال کرے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست