بیماری پر سیاست یا سیاست کی بیماری

ہمارے ہردلعزیز وزیر اعظم یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ وہ کسی کو این آر او نہیں دیں گے، لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی ان کے پاس کوئی اس قسم کا اختیار ہے؟

مناسب علاج کے بغیر  پاکستان میں  رہنا نواز شریف کی صحت کو فائدہ پہنچا رہا ہے اور نہ ہی عوام میں حکومت کے لیے نیک خواہشات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے(اے ایف پی)

نواز شریف کی ناسازیِ طبع پر حکومت کے ردعمل نے اخلاقیات کی معمولی سی بھی سدھ بدھ رکھنے والے کو ورطہِ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ بیرونِ ملک علاج کی اجازت کے عوض سابق وزیر اعظم پر بھاری ضمانت کی شرط عائد کرنے کا متنازع فیصلہ کر کے حکومت نے اپنے خلاف ایک اور محاذ کھول لیا ہے۔

متنازع دھرنوں سے متاثرہ فضا وزرا اور مشیران کے لایعنی بیانات کے نتیجے میں مزید دگرگوں ہو رہی ہے اور وہ ہیں کہ جیسے ابھی تک نئی نویلی طاقت کے نشے میں مخمور، گردو پیش کی حقیقتوں سے بےخبر، آنکھیں موندھے بیٹھے ہیں۔ اس ناقابلِ فہم اقدام نے حکومت کی عقل و دانائی اور فہم و فراست پر بہت سارے سوالات کھڑے کیے ہیں۔

اول یہ کہ پی ٹی آئی حکومت کو اس ادراک میں اتنا وقت کیوں لگا کہ سابق وزیر اعظم کی صحت واقعی خطرناک حد تک خراب ہو چکی ہے۔ بسیار لیل و لیت کے بعد ہی حکومت نے ان کے علاج معالجے کی طرف کچھ توجہ دینا مناسب سمجھا۔

پی ٹی آئی رہنماؤں نے نواز شریف کی بیماری پر سیاست کرنے کا موقع بھی چوکنے نہ دیا ہر چند کہ عمران خان نے اس خمیدہ حرکت سے باز رہنے کی ہدایت کی ہوئی تھی۔ پی ٹی آئی رہنما یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اس طرح کی حرکتوں سے وہ کسی اور کو نہیں بلکہ اپنی جماعت کو ہی نقصان پہنچا رہے ہیں۔ اگر نواز شریف کو کچھ ہو جاتا ہے تو ملک میں عدم استحکام پیدا ہونے کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا جس کے لیےحکومت کو ہی موردِ الزام ٹھرایا جائے گا۔

دوم یہ کہ کیا نواز شریف سے پیشگی ضمانت کے، جسے ن لیگ تاوان کا نام دے رہی ہے، حکومتی مطالبے کا کوئی قانونی جواز ہے؟ اس سوال کا سیدھا سادا جواب منفی میں ہے۔

ملک کی حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ یہاں تک کہ جن ارسطوؤں اور افلاطونوں نے اس طرح کی تجویز پیش کی ہے وہ بھی کوئی تسلی بخش جواز نہیں پیش کرسکے۔ حکومت کی بے سروپا شرائط عدالتی فیصلے کے عین خلاف ہیں جس کے تحت پہلے ہی نواز شریف کو پاکستان یا بیرون ملک اپنی مرضی کے مطابق طبی علاج کروانے کی اجازت ملی چکی ہے۔

حکمران جماعت کے پاس اس سوال کا بھی کوئی معقول جواب نہیں کہ وہ کیوں کر نواز شریف سے مزید مالی ضمانت کا مطالبہ کر سکتے ہیں جبکہ انہوں نے عدالتی حکم کے مطابق زرِ ضمانت پہلے ہی جمع کروا دیا ہے۔ پی ٹی آئی کی ان شرائط کے خلاف ن لیگ نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے۔

اس سے ماحاصل تیسرا سوال یہ ہے کہ حکومت کی اس قدر غیرمعمولی اور ماورائے قانون شرائط سامنے لانے کی حقیقی وجہ کیا ہے؟ اس سلسلے میں حکومتی وزرا نے دو، دور ازکار اور غیر سنجیدہ دلائل پیش کیے ہیں۔

اول: ایسی مثال قائم کرنا کہ اگر دیگر سزا یافتہ سیاست دان بھی علاج معالجے کی غرض سے بیرون ملک جانے کا تقاضہ کریں تو انہیں بھی اسی طرح کے مچلکے پیش کرنا پڑیں۔ دوم: اس بات کو یقینی بنانا کہ جانے سے پہلے نواز شریف العزیزیہ سٹیل مل اور ایوین فیلڈ پراپرٹی کیس کی مالیت کے برابر رقم ادا کرنے کی حامی بھر کر جائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

درحقیقت حکومت ایک بیمار اور ناتواں شخص سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کر رہی ہے۔ بظاہر پیشگی ضمانت کا بانڈ حاصل کر کے حکومت یہ ثابت کرنا چاہتی ہے کہ 'قوم کا لوٹا ہوا پیسہ' واپس لے کر ہی نوازشریف کو جانے دیا گیا۔

تاہم اگر نواز شریف مدتِ مقررہ میں واپس آ جاتے ہیں تو تحریک انصاف یہ دعویٰ کرے گی کہ وہ لوٹی ہوئی رقم واپس لینے کے لیے آئے ہیں۔ دونوں صورتوں میں مقصد مسلم لیگ ن کی پوزیشن کو نقصان پہنچانا ہے۔

توقع کے عین مطابق ن لیگ نے حکومت کی شرائط یکسر مسترد کر دی ہیں۔ ماورائے قانون ہونے کے علاوہ وہ بخوبی جانتے ہیں کہ اس طرح کے بیانِ حلفی پر دستخط کرنا اعترافِ جرم سے کم نہیں ہو گا جسے حکومت کسی بھی وقت نواز شریف یا ضامن کے خلاف استعمال کر سکتی ہے۔

نواز شریف کی شدید علالت کے مدِنظر ان کی درخواست پر فوری عمل کی بجائے حکومت نے سرخ فیتے والا لمبا طریقہ کار اپنایا جو کسی نیک ارادے کا مظہر نہیں۔ جب گذشتہ جمعے سابق وزیر اعظم کی حالت تشویش ناک بتائی گئی تو وزیر اعظم اور ان  رفاقائے کار نے معاملے کی سنجیدگی کا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ انہیں فوراً بیرونِ ملک جانے کی اجازت دی جائے گی۔

ارادہِ سفر اتوار کے روز کا تھا لیکن ایک ہفتہ گزر گیا ہے اور مریض ابھی تک یہیں ہے۔ حیلے کے طور پر حکومت نے احتساب بیورو کو بھی شامل کر لیا کہ نیب کی شکایت پر ہی ان کا نام ای سی ایل میں ڈالا گیا تھا۔ حالانکہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی کہ اس سے پہلے نیب کی رضامندی کے بغیر ای سی ایل میں شامل چند افراد کو بیرونِ ملک روانگی کی اجازت دی گئی تھی۔

اس سے حکومتی پارٹی کے دوغلے پن کا پتہ چلتا ہے۔ کابینہ میں داغ دار ساکھ کے حامل اشخاص جیلوں میں ہونے کی بجائے اقتدار کے مزے لے رہے ہیں لیکن ایک علیل شخص کو درمان کے لیے جانے کی اجازت دینا عملِ محال نظر آتا ہے۔

مناسب علاج کے بغیر یہاں رہنا نواز شریف کی صحت کو فائدہ پہنچا رہا ہے اور نہ ہی عوام میں حکومت کے لیے نیک خواہشات میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ وہ کئی دنوں سے سکون بخش ادویات استعمال کر رہے ہیں جو اس طرح کے مریض کے لیے مزید نقصان دہ ثابت ہوتی ہیں لیکن حکومت غافل دکھائی دیتی ہے۔

نواز شریف کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی غیرمشروط اجازت نہ صرف انسانیت کے اعلیٰ مقاصد کی آئینہ دار ہو گی بلکہ حکومت کو درپیش ایک بڑا مسئلہ بھی دور کر دے گی۔ ان نامساعد معاشی اور سیاسی حالات میں حکومت کو معیشت، روزگار اور گورننس جیسے اہم امور پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک اچھی حکومت کا مطمع نظر سیاست کی بیماری کو ختم کرنا ہوتا ہے نہ کہ بیماری کی سیاست کرنا۔

ہمارے ہردلعزیز وزیر اعظم یہ اعلان کرتے نہیں تھکتے کہ وہ اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی کو این آر او نہیں دیں گے۔ لیکن سوچنے کی بات ہے کہ کیا واقعی ان کے پاس کوئی اس قسم کا اختیار  ہے؟

ان کو یہ ذہن نشین کرانا ضروری ہے کہ ان کے پاس قطعاً کوئی ایسا اختیار نہیں، جو مقدمات ایک دفعہ عدالتوں میں چلے جائیں ان میں حکومت کا کوئی عمل دخل نہیں رہتا۔ نیب کے زیر جائزہ مقدمات میں بھی حکومت بے بس اور لاچار ہی ہوتی ہے۔ پرویز مشرف این آر او جاری کر سکے تھے کیونکہ وہ ایک فوجی آمر تھے۔ یقیناً عمران خان خود کو کسی آمر کے برابر میں دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔

اگر بفرضِ محال وزیر اعظم کو کوئی ایسی غیر مرئی طاقت مل بھی جاتی ہے تو مشرف کے اس ناعاقبت اندیش اقدام کے نتائج پر ایک نظر ڈالنا یقیناً سبق آموز ہو گا۔ جیسا کہ قارئین کو یاد ہو گا کے این آر او نے ملک کو ایک سنگین سیاسی بحران سے دوچار کر دیا تھا۔

اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار چوہدری نے این آر او معطل کر دیا جس کے بعد ایمرجنسی کا نفاذ کر کے مشرف نے انہیں گرفتار کر لیا۔ نئے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر نے این آر او کو دوبارہ بحال کر دیا جسے افتخار چوہدری نے کرسی واپس ملنے پر ایک دفعہ پھر منسوخ کر دیا اور این آر او کے تحت نمٹائے گئے تمام معاملات دوبارہ کھولنے کا حکم دیا۔

ان پے در پے واقعات نے ملکی سیاست پر گہرے اثرات مرتب کیے، حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی تھی اور یہ واضح نہیں ہو رہا تھا کہ ملک کی باگ ڈور منتخب سیاست دان چلا رہے ہیں یا عدلیہ یا پھر کوئی اور؟ عمران خان یقیناً اس قسم کے حالات دوبارہ دیکھنا پسند نہیں کریں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ