کرتار پور: توقع پانچ ہزار کی آتے پانچ سو بھی نہیں

’ہم پانچ ہزار سنگتوں (یاتریوں) کا استقبال کر سکتے ہیں لیکن تاحال ایک دن میں ہماری سنگتوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد 600 رہی، جو ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ کیوں نہیں آ رہے؟‘

سکھوں کی مَن کی مراد کرتارپور راہداری کا اس ماہ افتتاح ہوگیا۔ پاکستان سمیت بھارت اور دنیا بھر سے سکھ یاتری لاہور سے تین گھنٹے کی مسافت پر ضلع نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقعے گردوارہ دربار صاحب میں آکر ماتھا ٹیکتے ہیں اور مذہبی فرائض سرانجام دیتے ہیں ۔

خصوصاً بھارت سے آنے والے یاتریوں کی خوشی اور جذبات دیکھنے لائق ہوتے ہیں۔

راہداری کے ذریعے بھارت سے آنے والے یاتریوں کی آمد صبح نو بجے شروع ہوتی ہے اوروہ تقریباً تین بجے کے قریب واپس چلے جاتے ہیں۔ کرتارپور آنے سے پہلے میرا یہی خیال تھا کہ مجھے یہاں بہت رش ملے گا، لیکن ایسا بالکل نہیں ہوا۔

 میرے ذہن میں سوال ابھرا: ’اتنی خاموشی کیوں ہے؟‘

اس کا جواب مجھے گردوارہ دربار صاحب میں پاکستان سکھ پربندھک کمیٹی کے واحد رکن اندرجیت سنگھ سے ملا، جنہوں نے بتایا کہ ’نو نومبر کو کرتارپور راہداری کے افتتاح کے موقعے پر 578 یاتریوں پر مشتمل بھارت سے پہلا وفد آیا تھا جبکہ آج کل روزانہ ڈھائی، تین سو یاتری یہاں آ رہے ہیں۔‘

اندرجیت سنگھ کے مطابق: ’ہم پانچ ہزار سنگتوں (یاتریوں) کا استقبال کر سکتے ہیں لیکن ابھی تک ایک دن میں ہماری سنگتوں کی زیادہ سے زیادہ تعداد چھ سو رہی ہے، جو ایک سوالیہ نشان ہے کہ وہ کیوں نہیں آ رہے؟‘

انہوں نے مزید بتایا: ’سنگتوں کا کہنا ہے کہ بھارت میں رجسٹریشن کا آن لائن سسٹم پیچیدہ ہے، جسے آسان بنانا چاہیے۔ دوسرا بھارت میں ایک شِق ہے کہ ہر کسی کے پاس پاسپورٹ ہونا ضروری ہے، لہذا ہم بھارتی حکومت سے درخواست کریں گے کہ وہ ڈرائیونگ لائسنس، آدھار کارڈ یا کسی اور شناختی دستاویز پر بھی رجسٹریشن کریں۔‘

اندرجیت نے ہمیں بھارت سے آئی ہوئی سنگتوں سے بھی ملوایا اور ساتھ ساتھ سکھ مذہب اور بابا گرونانک کی تعلیمات سے آگاہ کیا۔

’اب واپس جانے کا دل نہیں کر رہا‘

بھارتی پنجاب کی خوش مزاج ہرپریت کور یہاں آکر پھولے نہیں سما رہی تھیں۔

 انہوں نے بتایا: ’یہاں آنے سے پہلے بہت ڈر تھا کہ ہمارا آنا جانا کیسے ہوگا؟ لوگ کیسے ہوں گے؟ ہمارا آنا پسند بھی کریں گے یا نہیں؟ لیکن جب ہم ادھر آئے تو داخلے کے ساتھ ہی لوگوں کا بہت پیار ملا۔ یہ پیار دیکھ کر اب ہمارا واپس جانے کا دل نہیں کر رہا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہرپریت کے شوہر بھی کافی زندہ دل انسان معلوم ہوئے، جو کرتارپور راہداری کھلنے پر پاکستان اور بھارتی حکومتوں کے شکر گزار تھے۔

انہوں نے ہنستے ہوئے بتایا: ’ہمیں ماتھا ٹیکنے کا وقت کم ملا کیونکہ لوگ ہم سے گھلنے ملنے کے لیے زیادہ بیتاب رہے۔‘

انہوں نے بھی اندرجیت سنگھ کی بات کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ’دونوں حکومتوں نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے راستہ کھولا ہے لیکن ہم یہ امید کرتے ہیں کہ اس عمل کو مزید آسان بنایا جائے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ یہاں آئیں اور درشن کر سکیں۔‘

’بابا جی کی دعا سے ہماری زمین بچ گئی‘

ابھی ہرپریت اور ان کے شوہر سے میری بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ آئی ہوئی ایک مسکراتی پاکستانی مسلمان خاتون نے میرا بازو پکڑ لیا اور نہایت شرمائے ہوئے لہجے میں اپنی ویڈیو بھی بنانے کی فرمائش کر ڈالی۔

سکھ یاتریوں کے گروپ کے ساتھ مجھے دیکھ کر شاید انہیں لگا کہ میں بھی بھارت سے آئی ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں پاکستان سے ہی ہوں، جس پر وہ تھوڑی سی شرمندہ ہو کر ایک طرف ہو گئیں لیکن انہوں نے اندرجیت سنگھ سے شکوہ ضرور کیا کہ انہیں گردوارہ دربار صاحب کے اندر کیوں نہیں جانے دیا رہا؟ پہلے تو وہ آتے رہتے تھے لیکن اب انہیں منع کر دیا گیا ہے جس پر انہیں بتایا گیا کہ صرف کچھ دن کے لیے ایسا کیا گیا ہے۔

یہ ایک بڑا ہی دلچسپ اور دل والا مسلمان خاندان تھا، جس کے سربراہ عاطف مجید تھے۔ انہوں نے بتایا کہ باباجی کی دعاؤں کی بدولت ان کی زمین گردوارہ اور کرتارپور راہداری کے روٹ میں آنے سے محفوظ رہی۔

عاطف کا کہنا تھا: ’سب لوگوں کی زمین بیچ میں آئی، ہم نے بابا جی سے دعا کی اور ہماری زمین بچ گئی۔ ہم پہلے بھی یہاں آتے تھے اور اب بھی یہاں آتے ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’شکر گڑھ روڈ سے نیچے کی طرف گردوارے کو جانے والی سڑک پر بائیں طرف ہمارا ڈیرہ اور قیمتی زمین ہے۔ سارا پروجیکٹ اسی طرف تھا، لیکن پھر ہم نے اللہ سے اور بابا جی سے دعا کی تو سارا پروجیکٹ دائیں طرف منتقل ہوگیا۔ ابھی بھی دو قلعے زمین منصوبے کی زد میں آئی ہے، جس کے لیے ہمیں فی قلعہ آٹھ لاکھ 40 ہزار روپے معاوضہ دینے کا کہا گیا ہے۔‘

تاہم ان کا کہنا تھا کہ انہیں ابھی پیسے نہیں ملے، یہ معاملات چل رہے ہیں۔

گردوارہ دربار صاحب ایک انتہائی پرسکون اور پرشکوہ سفید عمارت ہے، جس کے چاروں اطراف ماربل کا وسیع و عریض صحن ہے۔ پہلے یہ گردوارہ صرف چار ایکڑ پر محیط تھا لیکن پھر راہداری کے قیام کی غرض سے اس میں توسیع کی گئی۔

اندرجیت سنگھ دیگر سنگتوں کے ہمراہ ہمیں بھی گردوارے کے اندر لے گئے۔ انہوں نے ہمیں بابا گرونانک کی سمادھی اور قبر بھی دکھائی اور بتایا کہ 22 ستمبر 1539 کو جب بابا جی پردہ پوش ہوئے تو ان کے مسلمان اور سکھ عقیدت مند جھگڑنے لگے کہ وہ اپنے طریقے کے مطابق آخری رسومات ادا کریں گے۔ اس جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے کسی درویش کے کہنے پر جب بابا جی کے جسم سے چادر اٹھائی گئی تو وہاں جسم کی جگہ صرف پھول موجود تھے، جس کے بعد پھولوں اور چادر کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ مسلمانوں نے چادر اور پھولوں کو دفن کرکے مزار بنا دیا جبکہ سکھوں نے ان کا سنسکار کرکے سمادھ استھان بنا دی۔

گردوارے میں دو درشن دیوڑیاں بھی بنائی گئی ہیں جبکہ ایک دیوان استھان ہے، جس کے متعلق ہمیں بتایا گیا کہ یہ ابھی فعال نہیں، لیکن جب یاتری زیادہ آئیں گے تو اسے فعال کر دیا جائے گیا، جہاں وہ عبادت کرسکیں گے۔

گردوارے کے احاطے میں بابا گرونانک کا ایک کنواں بھی ہے، جس کے اطراف دیوار لگا کر اسے محفوظ کر دیا گیا ہے، تاہم کچھ سکھ یاتری اس سے ناخوش نظر آئے۔

دبئی سے آئے ایک سکھ یاتری سکھ دیو سنگھ نے بتایا کہ وہ یہاں دوسری مرتبہ آئے ہیں۔

’پہلی بار جب آیا تھا تو بابا گرو صاحب کی نشانیاں اور درخت اسی طرح تھے، لیکن اب انہیں تبدیل کردیا گیا ہے، ان کے اطراف پتھر لگا دیے گئے ہیں۔ ویسے تو یہ بہت خوبصورت بنا دیا ہے لیکن بابا جی کے ہاتھوں کی نشانیوں کو ویسے ہی رہنا چاہیے تھا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان