کرتار پور میں ساگ، گلاب جامن اور چاٹ سے تواضع

کرتارپور آئے ہوئے ہر یاتری کی الگ الگ کہانی تھی۔ کوئی آبا و اجداد کے گھر دیکھنا چاہتا تھا تو کوئی بچھڑے رشتہ داروں سے ملنے کی آس میں تھا تو کسی کو شاپنگ فکر تھی۔

 کھانے میں گوشت نہیں تھا چونکہ سکھ دھرم میں مذہبی رسومات کے لنگر میں گوشت سے بنا ہوا کھانا شامل نہیں کیا جاتا(مونا خان/انڈپینڈنٹ اردو)

بارہ نومبر کو بابا گرونانک کے 550 جنم دن کے موقعے پر پاکستان نے قلیل دس ماہ کی مدت میں گردوارہ دربار صاحب کی تعمیر و مرمت کے ساتھ کرتارپورراہ داری کا کام مکمل کرنے کے بعد نو نومبر کو ان کا باقاعدہ افتتاح کر دیا۔

بھارت سمیت دنیا بھر سے سکھ برادری پاکستان میں اپنی مقدس عبادت گاہ آنا چاہتی ہے۔

 اِس وقت کئی ہزار مقامی، بھارت اور مغربی دنیا سے آئے سکھ یاتری کرتار پور میں موجود ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو نے ہفتے کو راہ داری کھولنے کی تقریب میں شریک کئی سکھ خاندانوں سے بات چیت کی اور اُن کے تاثرات جانے۔

ایک سال قبل جب میں نے 28 نومبر کو کرتار پور راہ داری کے سنگ بنیاد کی تقریب میں شرکت کی تھی تواُس وقت گردوارہ چار ایکڑ پر محیط تھا اور اس کی سفید عمارت کے علاوہ باقی سب کچی زمین تھی۔

تاہم، تقریباً ایک سال بعد نو نومبر کو جب ہم گردوارہ دربار صاحب پہنچے تو وہاں کا نقشہ ہی بدل چکا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نارووال کی تحصیل شکر گڑھ میں واقع کرتار پور کی جانب جاتی سڑک نئی بنائی گئی ہے اور اُس سے آگے کے راستے کو خاردار تاروں کی دیوار سے محفوظ کیا گیا ہے۔

ہفتے کو گردوارے میں میڈیا ٹیموں کے علاوہ ہر طرف یاتری ہی دکھائی دے رہے تھے۔ پاکستان کے اندر سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار سے زائد زائرین اپنی گاڑیوں میں بمعہ خاندان موجود تھے۔

 کچھ ایسے خاندان بھی تھے جنہوں نے گردوارہ صاحب کے اندر عمارت میں اپنے رشتے داروں سے ملنا تھا۔

’بابا گرو نانک کا جنم دن بچھڑے ہوؤں کو ملا رہا ہے‘

لاہور سے تعلق رکھنے والے دھرن سنگھ بھی اپنے خاندان کے ہمراہ یہاں تشریف لائے ہوئے تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1947 کے بعد اُن کے بہت سے رشتہ دار بھارتی پنجاب بٹالہ ہجرت کر گئے لیکن اُن کے دادا نے پاکستان میں رہنے کو ترجیح دی جوکہ درست فیصلہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے دادا کے بہن بھائی بھارت چلے گئے تھے، اُدھر موجود رشتہ داروں سے پہلے خطوط کے ذریعے رابطہ ہوتا تھا لیکن اب وٹس ایپ نے فاصلے ختم کر دیے ہیں۔

 انہوں نے کہا پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدہ تعلقات کے باعث وہ بھارت جا نہیں سکتے تھے، اس لیے بابا گرو نانک کا جنم دن بچھڑے خاندانوں کو بھی ملا رہا ہے۔

گردوارے میں دو درشن دیوڑیاں بنائی گئی ہیں اور مقامی یاتری جس میں واہگہ سے آنے والے بھارتی یاتری بھی شامل ہیں وہ داخلی دروازے کے ساتھ دیوڑی سے گردوارے کے اندر جا رہے تھے۔

 براستہ راہ داری آنے والے یاتری جو ویزے کے بغیر آئیں گے وہ راوی پل کے قریب درشن دیوڑی سے اندر داخل ہوں گے اور اُدھر سے ہی واپس جائیں گے، لیکن گردوارے کی عمارت کے اندر پہنچ کر دونوں اطراف سے آنے والے یاتری ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔

امریکہ سے آئی 24 سالہ شرمت کور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کی پیدائش بھی امریکہ میں ہوئی ہے لیکن بچپن سے بابا گرو نانک اور اُن کی زندگی کے آخری ایام پاکستان میں گزارے جانے کے قصے سُننے کے بعد ایک شوق تھا کہ کرتارپور جاؤں۔

 شرمت نے بتایا کہ پاکستان میں ان کا کوئی رشتہ دار موجود نہیں اور وہ امریکہ سے آنے والے گروپ کے ساتھ آئی ہیں۔

امریکی ریاست انڈیانا سے تعلق رکھنے والے آکاش دیپ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ وہ پہلی بار پاکستان آئے ہیں لیکن اب ہر سال پاکستان آئیں گے۔

انہوں نے کہا بھارت نے پاکستان کا جو تاثر بنایا ہے وہ یہاں پہنچ کر بالکل غلط ثابت ہوا۔’اس جگہ اور مٹی سے اتنی اپنائیت محسوس ہو رہی ہے کہ اجنبیت کا احساس ہی باقی نہیں رہا۔‘

 آکاش نے کہا وہ امریکہ واپس جا کر ڈاکومینٹری بنائیں گے اور وہاں موجود سکھ برادری کو آگاہ کریں گے کہ جو اُن کو پاکستان کے بارے بتایا جاتا تھا حقیقت اُس کے برعکس ہے، وہاں کے لوگ بہت مہمان نواز اور پیار کرنے والے ہیں۔

'کھانے کا مینیو‘

گردوارے کے اندر لنگر خانے بھی بنائے گئے ہیں۔ جنم دن کے موقعے پر آنے والے یاتریوں کے لیے کھانے پینے کا انتظام حکومت پاکستان نے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی سکھ برادری نے بھی لنگر میں اپنا حصہ ڈالا اور مختلف کھانے وافر مقدار میں پکوا کر ساتھ لائے۔

 کھانے میں گوشت نہیں تھا چونکہ سکھ دھرم میں مذہبی رسومات کے لنگر میں گوشت سے بنا ہوا کھانا شامل نہیں کیا جاتا، لہٰذا کھانے میں ساگ، چاول، دال اور سلاد سرکاری طور پر دیا گیا۔

 اس کے علاوہ میکرونی، گلاب جامن، چاٹ اور دیگر کھانے سکھ برادری نے فراہم کے۔

یاتریوں کی پاکستان سے شاپنگ

گردوارے کی عمارت کے اندر مختلف کمیونٹی ہال بھی بنے ہوئے ہیں، جہاں بہت سے یاتری سستا رہے تھے اور کچھ آپس میں خوش گپیوں میں مصروف تھے۔

اسی اثنا میں میرے ساتھ خاتون صحافی سمیرا خان کے پاس ایک بزرگ سکھ یاتری آئے اور کہا’ آپ نے جو پھلکاری کی چُنری پہنی ہوئی ہے وہ مجھے اپنی بیٹی کے لیے خریدنی ہے۔ ‘

انہوں نے بتایا کہ وہ امرتسر سے آئے ہیں اور بیٹی نے کہا تھا کہ پاکستان سے تحفہ لازمی لے کر آنا۔

ہم نے انہیں بتایا کہ لاہور میں لبرٹی مارکیٹ سے آپ کو یہ پھلکاری دوپٹے مل جائیں گے۔ اور بھی یاتریوں نے ہم سے پوچھا کہ وہ پاکستان میں شاپنگ کہاں سے کر سکتے ہیں کیونکہ وہ واپس جاتے ہوئے بہت سی یادگاریں ساتھ لے کر جانا چاہتے ہیں۔

ہر یاتری سے مل کرایک نئی کہانی پتہ چل رہی تھی۔ کوئی آبا و اجداد کے گھر دیکھنا چاہتا تھا ،تو کوئی بچھڑے رشتہ داروں سے ملنے کی آس میں تھا۔

کئی یاتری من میں آس اور منت لیے ماتھا ٹیکنے آئے تھے تاکہ دل کی مراد پا سکیں۔ ایک بے اولاد سکھ جوڑا بھارت سے گردوارے میں موجود بابا گرو نانک کے کنویں سے پانی پینے آیا تھا تاکہ اُس کی برکت سے وہ اولاد کی نعمت حاصل کر سکے۔

غرض کہ ہر اُٹھی ہوئی جھولی میں بے شمار مرادیں اور تمنائیں تھیں جو اُنہیں کھینچ کر کرتارپور لے آئی تھیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان