’سکھوں نے کبھی نہیں کہا کہ پنجاب کے درمیان لکیر کو ختم کیاجائے‘

سردار رمیش سنگھ اروڑا نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سکھ برادری صرف مذہبی بنیادوں پر ایک ہے لیکن شہریت کے لحاظ سے بھارتی اور پاکستانی سکھ اپنے اپنے ملک کے لیے وفاداری کا جذبہ رکھتے ہیں۔

سردار رمیش سنگھ اروڑا گردوارہ گرونانک کرتارپورکے سیوک ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سکھوں نے کبھی نہیں کہا کہ پنجاب کے درمیان لکیر کو ختم کیاجائے کیونکہ یہ لکیر نہیں بارڈرہے جسے بھارتی اور پاکستانی سکھ تسلیم کرتے ہیں۔

لیکن دوریوں کو ختم کرنے کی خواہش ہمیشہ سے رہی ہے۔ انڈپینڈنٹ اردو کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ کرتارپور صاحب کے ساتھ ان کا خاندانی انس ہے۔ ’ہمارے خاندان نے گردوارہ کھلنے پر اس کی سیوہ سنبھالی۔ گرونانک صاحب نے زندگی کے آخری 18 سال یہیں گزارے اور یہیں ان کی آخری آرام گاہ بنی۔‘

انہوں نے کہا ’اگرچہ قیام پاکستان کے وقت بہت سے سکھ ہجرت کر کے بھارت چلے گئے لیکن انہیں فخر ہے کہ ان کا خاندان پاکستان میں ہی آباد رہا اور یہی انکا وطن ہے۔‘ انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق مسلم لیگ ن سے ہے اور بطور سیاسی کارکن وہ سمجھتے ہیں کہ کرتار پور بارڈر کھولنے کی کوشش میاں نواز شریف دور میں بھی ہوئی، بے نظیر کے دور حکومت میں بھی ہوئی لیکن اس وقت عملی اقدامات نہ ہو سکے۔ لہذا موجودہ دور حکومت میں سکھوں کے لیے بارڈر کھلنا نہ صرف سکھ برادری کے لیے خوش آئند ہے بلکہ دونوں ملکوں میں قیام امن کے لیے بھی سازگار اقدام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بارڈر بند ہونے پر بھارت کی طرف سے آنے والے سکھوں کو اپنے روحانی پیشوا کی آرام گاہ کی زیارت چار کلو میٹر دور سے کرنا پڑتی تھی اور ماتھا ٹیکنا بھی ممکن نہ تھا، اس موقع پر دونوں طرف کی سکھ برادری اضطراب کا شکار ہوتی تھی۔

ان کا کہنا تھا ’پاکستان کی جانب سے بھارتی سکھوں کی حمایت کرنے سے متعلق پروپیگنڈہ کیا جاتا ہے کیوں کہ مذہبی لحاظ سے تمام سکھ برادری راہداری کھلنے پر خوش ہے۔ بھارتی حکومت سکھوں کے پاسپورٹ پر پاکستانی ویزہ لگنے پر ان کے متنازعہ ہونے کا بھی پروپیگنڈہ کرتی ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘

انہوں نے کہا جس طرح سکھوں کے لیے پاکستان نے کرتارپور راہداری کھول کر ان کے جذبات کو تسکین دی اسی طرح بھارت کو بھی پاکستانیوں کے لیے گولڈن ٹیمپل اور اجمیر شریف جیسے مقامات تک جانے کے لیے آسانیاں فراہم کی جائیں یہ دونوں طرف کے شہریوں کا حق ہے۔

انہوں نے کہا ’کرتار پور راہداری کھلنے سے متعلق متنازعہ بیانات قابل مذمت ہیں کیوں کہ اس سے لوگوں کی دل آزادی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا ایل او سی پر پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کا کرتار پور راہداری سے کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ سکھ برادری صرف مذہبی بنیادوں پر ایک ہے لیکن شہریت کے لحاظ سے بھارتی اور پاکستانی سکھ اپنے اپنے ملک کے لیے وفاداری کا جذبہ رکھتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا ایل او سی پر حالات جیسے بھی رہے کرتار پور راہداری کا کام بند نہیں ہوا اسی طرح حالات جو بھی ہوں یہ راہداری کھلی رہنی چاہیے۔ انہوں نے کہا سیاسی اختلاف اپنی جگہ لیکن یہ راہداری کھولنے پر وہ وزیر اعظم عمران خان کے شکرگزار ہیں۔انہوں نے دونوں ملکوں سے اپیل کی کہ گرونانک کی تعلیمات کے مطابق امن، بھائی چارے، محبت اور تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔انہوں نے کہا ’دعوے سے کہتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ ہیں۔ ان کے جان ومال کے تحفظ اور عبادت گاہوں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے۔ گردوارہ کرتار پور دنیا کا سب سے بڑا گردوارہ بن چکا ہے۔

انہوں نے کہا کشمیر کے معاملہ پر پاکستانی سکھ کشمیریوں کے ساتھ ہیں سکھ اپنے گرو کے پیغام کے مطابق سیوہ پر یقین رکھتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان