کارل مارکس کی لندن میں قبر کی دو ہفتوں میں دوسری مرتبہ بےحرمتی

قبرستان چلانے والی تنظیم کا کہنا ہے کہ ’مارکس کی میراث کے بارے میں آپ کی سوچ جو بھی ہو، یہ کچھ کہنے کا طریقہ نہیں ہے۔‘

سوشل میڈیا سے حاصل کی گئی اس تصویر میں کارل مارکس کی قبر پر سرخ رنگ سے لکھی گئی عبارتیں دیکھی جاسکتی ہیں۔ بےحرمتی کرنے والوں نے قبر پر لکھا ’نفرت کے نظریات‘۔ فوٹو۔رائٹرز

جرمن فلاسفر کارل مارکس کی لندن میں قبر کی دو ہفتوں میں دوسری مرتبہ بےحرمتی کی گئی ہے۔ شہر کے ہائی گیٹ قبرستان کے سب سے معروف باسی کارل مارکس کی قبر پر بےحرمتی کرنے والوں نے سرخ رنگ سے ’نفرت کے نظریات‘ اور ’نسل کشی کے معمار’ لکھا۔

قبرستان کا انتظام چلانے والے خیراتی ادارے کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے سنگ مرمر کی تختی کو اس ’بےوقوفانہ، کسی سوچ سے عاری اور جاہلانہ‘ حملے میں توڑ دیا۔

اس سے قبل اس ماہ کے اوائل میں یادگار کو جسے دیکھنے کے لیے ہر سال ہزاروں سیاح آتے ہیں ہتھوڑی سے نقصان پہنچایا تھا۔

قبر دیکھنے کے لیے آنے والے میکسویل بلوفیلڈ کا کہنا تھا کہ وہ ہفتے کی صبح بےحرمتی کے بارے میں آگاہ ہونے کے بعد سے شدید صدمے میں ہیں۔

اکتیس سالہ بلوفیلڈ جو برٹش میوزیم کے ساتھ پریس آفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں کہنا تھا ’کہ یہ تو اس قبرستان کی اہم ترین چیز تھی۔ یہ قابل شرمندہ بات ہے۔ یہ سرخ رنگ تو چلا جائے گا میرے خیال میں لیکن اس قسم کے دو مرتبہ نقصان کو دیکھنا اچھا نہیں ہے۔‘

’میں نہیں کہنا چاہوں گا کہ ایسا کس نے اور کیوں کیا لیکن یہ بات واضح ہے کہ یہ وہ کوئی ہوسکتا ہے جو مارکس اور اس دور کی تاریخ کا ناقد ہے۔ مجھے حیرت ہے کہ 2019 میں کوئی ایسا کچھ کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔‘

قبرستان کے ٹوئٹر اکاونٹ پر اس بےحرمتی کی مذمت کی گئی ہے۔ ’آپ مارکس کی میراث کے بارے میں جو بھی رائے رکھتے ہوں لیکن یہ اپنا موقف بتانے کا طریقہ نہیں ہے۔

فرینڈز آف ہائی گیٹ سمیٹری ٹرسٹ کے خیال میں مارکس کی قبر کو بظاہر چار فروری کے حملے کے بعد ’جان بوجھ کر‘ حملہ کیا گیا ہے۔ ٹرسٹ کے چیف ایگزیکٹو این ڈونگاویل نے حملے کو ’بہت پریشان کن‘ قرار دیا۔

سنگ مرمر کی تختی سب سے پہلے مارکس کی بیوی جینی ون ویسٹفلن قبر پر 1881 میں استعمال کیا گیا تھا۔ اسے وہاں سے 1954 میں موجودہ مقام پر منتقل کیا گیا۔  1970 میں اس یادگار کو گھریلو ساختہ بموں سے نقصان پہنچا تھا۔ اسے ملک میں انتہائی اہم عمارتوں یعنی گریڈ ون میں شمار کیا جاتا ہے۔

اس یادگار کی ملکیت مارکس گریو ٹرسٹ کے پاس ہے جس کی نمائندگی کلرکن ویل میں قائم مارکس میموریل لائبریری کرتی ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ دونوں حملوں میں ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔ میٹروپولٹن پولیس کے ترجمان نے کہا: ’ہم اپیل کرتے ہیں ہر کسی کو جس کے پاس اس بارے میں کوئی معلومات ہیں کہ وہ ہم سے رابطہ کریں۔‘   

کارل مارکس کون تھے؟

کارل مارکس 5 مئی 1818ء کو پروشیا (موجودہ جرمنی) کے صوبہ رھائن کے شہر ٹریئر میں پیدا ہوئے۔

مارکس کے والد ایک یہودی وکیل تھے جنہوں نے 1824ء میں مسیحی فرقے پروٹسٹنٹ کا مذہب قبول کر لیا تھا۔ پورا گھرانہ خوش حال اور مہذب تھا، لیکن انقلابی نہیں تھا۔ ٹریئر میں تعلیم سے فارغ ہونے کے بعد مارکس نے پہلے بون اور پھر برلن یونیورسٹی میں قانون کی تعلیم حاصل کی اور خاص طور سے تاریخ اور فلسفے کا مطالعہ کیا۔ 1841ء میں اُس نے یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کی اور ایپیکیوریس کے  فلسفے پر اپنا تحقیقی مقالہ ڈاکٹری کی سند حاصل کرنے کے لیے پیش کر دیا۔ خیالات کے لحاظ سے کارل مارکس اس وقت تک ہیگل کے عینی (خیال پرستانہ) نظرئیے سے متاثر تھے۔ برلن میں بھی ان کا تعلق ’بائیں بازو کے ہیگلیوں‘ (مثلاً برونو باور وغیرہ) کے حلقے سے تھا۔ ان لوگوں کی کوشش یہ رہتی تھی کہ ہیگل کے فلسفے سے لامذہبیت کے خیالات اور انقلابی نتائج اخذ کریں۔

کارل نے آزادیء صحافت پر پابندیوں کے خلاف آواز بلند کی جس پر اس کے کام کو اس دور کے درمیانے طبقے نے سراہا۔ اس نے بادشاہی نظام کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور درمیانے طبقے کی خواہشات کو الفاظ کی شکل میں ڈھالا۔ 1848 میں اس نے ایک کتابچہ تحریر کیا جس میں اس نے دنیا بھر کے محنت کشوں کو اکٹھے ہو کر جدوجہد کرنے کا پیغام دیا۔ اس کا نام ’کمونیسٹ مینی فیسٹو‘ تھا۔ مارکس نے کہا تھا کہ ایک خوشحال معاشرے میں جمہوری دور کے بعد سوشلزم کا دور ہو گا اور اس کے بعد ایک ایسا دور جس میں طبقاتی فرق مٹ جائے گا۔ سویت یونین اور چین میں یہ تجربات کافی حد تک ناکام رہے لیکن مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں مارکس کی ہی تعلیمات کا ایک پرتو ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا