بلوچستان میں مرد پر تیزاب پھینکنے کا پہلا واقعہ

اس سے قبل صوبے میں تیزاب گردی کے واقعات میں صرف خواتین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

پچھلے سال بلوچستان میں  تیزاب گردی کے دو  جبکہ 2019 میں تین واقعات میں چار خواتین اور ایک بچے کو نشانہ بنایا گیا(اے ایف پی)

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ’تیزاب گردی‘ کے واقعے میں ایک نوجوان کا چہرہ جھلس گیا۔ یہ صوبے میں پہلا واقعہ رپورٹ ہوا ہے جس میں کسی مرد کو اس طرح کے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

بلوچستان میں اس سے قبل تیزاب گردی کے واقعات میں صرف خواتین کو نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔

حملے کا نشانہ بننے والے سمیع اللہ ایک طالب علم اور کوئٹہ کے علاقے ڈبل روڈ کے رہائشی ہیں۔ انہوں نے بتایا: ’میں دکان پر موبائل فون میں بیلنس ڈالنے گیا تھا۔ جیسے ہی باہر نکلا تو دو نقاب پوش افراد نے مجھ پر کوئی چیز پھینک دی جس سے مجھے شدید تکلیف کا احساس ہوا۔‘

سمیع اللہ کے مطابق ان کے ساتھ تین دوست اور بھی تھے جو تیزاب سے معمولی جھلسے، تاہم دکان سے سب سے پہلے نکلنے اور سامنے ہونے کے باعث ان پر زیادہ اثر ہوا اور ان کا چہرہ جھلس گیا۔

ان کے بھائی عباس نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا جن حالات میں وہ اپنے بھائی کو دیکھ رہے ہیں وہ بہت تکلیف دہ ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں۔

عباس کے مطابق واقعے کے بعد پولیس کو اطلاع دے دی گئی ہے اور فی الحال حملہ آوروں کی شناخت نہیں ہو سکی۔

عباس کے بقول ’ہم نے ایف آئی آر درج کروا دی ہے، جس میں ہم نے اپنے ایک رشتہ دار پر شک ظاہر کیا ہے کہ وہ اس واقعے میں ملوث ہو سکتا ہے۔ باقی پولیس کی تفتیش کے بعد ہی کچھ معلوم ہوگا۔‘

دوسری جانب انڈسٹریل تھانے کے تفتیشی افسر ظفر نے تصدیق کی کہ سمیع اللہ کے بھائی نے ایک شخص غفار پر شک ظاہر کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کروائی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تھانے کی رپورٹ کے مطابق تیزاب سے سمیع اللہ کے چہرے اور بائیں آنکھ سمیت کندھے اور بائیں بازو جھلس گئے، جبکہ ان کے دوست وسیم کا دایاں بازو اور بائیاں ہاتھ جھلس گیا۔

ظفر کے مطابق انہوں نے غفار کے خلاف دفعہ 33 بی کے تحت مقدمہ درج کر کے کارروائی شروع کر دی ہے اور یہ حملہ خاندانی جھگڑے کا شاخسانہ ہو سکتا ہے۔

عباس نے ڈاکٹروں کے حوالے سے بتایا کہ سمیع اللہ کو زیادہ جسمانی نقصان نہیں ہوا کیونکہ پھینکا جانے والا تیزاب کسی گاڑی کی بیٹری کا تھا۔ ڈاکٹروں کے مطابق اگر یہ دوسرا تیزاب ہوتا تو سمیع اللہ کے چہرے کو شدید نقصان پہنچنے کا اندیشہ تھا۔

عباس نے بتایا کہ سرکاری ہسپتال میں ابتدائی طبی امداد کے بعد انہوں نے اپنے بھائی کو بہتر علاج کے لیے کوئٹہ کے ایک نجی ہسپتال منتقل کر دیا ہے۔

تیزاب گردی کے واقعات کے اعداد و شمار جمع کرنے والی غیرسرکاری تنظیم عورت فاؤنڈیشن بلوچستان کے مطابق 2018 میں تیزاب گردی کے دو اور 2019 میں تین واقعات میں چار خواتین اور ایک بچے کو نشانہ بنایا گیا۔

بلوچستان میں گذشتہ دورِ حکومت میں تیزاب گردی کے حوالے سے قانون کا مسودہ تیار کیا گیا تھا جو اب تک منظوری کے لیے اسمبلی میں پیش نہیں ہو سکا۔

عورت فاؤنڈیشن بلوچستان کے ڈائریکٹر علاؤ الدین خلجی کے مطابق تیزاب گردی کے حوالے سے بل کا مسودہ گذشتہ دورِ حکومت میں محکمہِ قانون کو بھیجا گیا تھا۔

خلجی نے بتایا سزاؤں کے تعین کے لیے بل محکمہ قانون نے ہوم ڈیپارٹمنٹ کو بھیج دیا ہے، جہاں اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

رواں سال بلوچستان اسمبلی میں تیزاب گردی کے واقعات اور تیزاب کی سرعام فروخت کو روکنے کے لیے اقدامات کے مطالبے پر مشتمل ایک قرارداد بھی منظور کی گئی تھی۔

بل کی محرک رکن بلوچستان اسمبلی شکیلہ نوید دہوار نے موقف اختیار کیا کہ تیزاب گردی کے بڑھتے واقعات روکنے کے لیے اسے دہشت گردی کا ایکٹ قرار دیا جائے۔

قومی اسمبلی میں گذشتہ برس تیزاب اور آگ سے جلانے کے جرم 2017 کا بل منظور کیا گیا تھا، جس کے تحت ایسے واقعات میں متاثرہ شخص کی موت پر مجرم کو کم از کم عمر قید کی سزا جبکہ زخمی کیے جانے پر مجرم کو کم از کم سات سال قید کی سزا دی جائے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان