برطانوی حکومت کا رہائی پانے والے دہشت گردوں کا ازسرنو جائزہ

وزارت انصاف کی جانب سے سابقہ قیدیوں کی فہرست کا ازسر نو جائزہ لینے کے نتیجے میں 34 سالہ نظام حسین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبے کے شبہ میں حراست میں لے کر جیل واپس بلا لیا گیا ہے۔

لندن برج حملے میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں  منعقدہ تقریب میں شریک خواتین   ۔ (تصویر: اے ایف پی)

لندن برج حملے میں ایک سابق قیدی کے ملوث ہونے کے بعد برطانوی حکومت نے ہنگامی طور پر دہشت گردی کے جرائم میں سزا یافتہ قیدیوں کو رہا کرنے کے فیصلے کا ازسر نو جائزہ لیا ہے۔

دوسری جانب حملے کے بعد برطانوی خفیہ ایجنسی ’ایم آئی 5‘ کی نگرانی کے عمل پر بھی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔

29 نومبر کو مرکزی لندن میں چاقو کے وار سے دو افراد کو ہلاک کرنے والے عثمان خان سمیت دہشت گردی کے جرم میں سزا یافتہ 500 سے زیادہ قیدیوں کو 2011 کے بعد سے رہا کیا جا چکا ہے۔ 

برطانیہ کے وزیر انصاف رابرٹ بکلینڈ کا کہنا ہے کہ حکومت رہائی پانے والے 74 شدت پسندوں پر عائد حدود کا ازسرنو جائزہ لے رہی ہے جو اس وقت لائسنس کی شرائط پر آزاد ہیں۔ 

ایل بی سی ریڈیو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا: ’ہم 200 سے زیادہ ایسے افراد کی فہرست کا بغور جائزہ لے رہے ہیں جو شاید دہشت گردی جیسے جرائم میں ملوث نہ ہوئے ہوں لیکن ان کا رجحان انتہا پسندی کی جانب ہو۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’میں اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہوں کہ ہم اس کا مکمل جائزہ لیں۔ ہم آئندہ چند ہفتوں بعد رہا ہونے والے قیدیوں کے بارے میں بھی جاننے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزارت انصاف کی جانب سے سابقہ قیدیوں کی فہرست کا ازسر نو جائزہ لینے کے نتیجے میں اب تک کم از کم ایک شخص کو گرفتار کیا گیا۔ حراست میں لیے گئے شخص کی شناخت نظام حسین کے نام سے کی گئی ہے۔

34 سالہ نظام حسین کو دہشت گردی کی کارروائیوں کے منصوبے کے شبہ میں حراست میں لے کر جیل واپس بلا لیا گیا ہے۔

رواں سال مارچ کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دہشت گردی کے جرائم میں ملوث 223 سزا یافتہ افراد برطانوی جیلوں میں قید ہیں جن میں سے 80 فیصد اسلام پسند اور 15 فیصد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے گروہوں سے ہے۔

برطانیہ میں قیدیوں کی تعداد 2018 کے بعد تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے اور ان میں وہ قیدی بھی شامل ہیں جن پر دہشت گردی اور انتہا پسندی کے الزامات تھے۔

وزیر انصاف کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں کہ جب ان قیدیوں رہا کیا جائے تو ان کے لائسنس کی شرائط ہر ممکن حد تک سخت ہوں۔

عثمان خان پر بھی ایسی ہی 22 پابندیاں عائد تھیں جو ان کی سرگرمیوں، نقل و حرکت اور تعلق کو محدود بناتی تھیں لیکن اس کے باوجود بھی وہ گذشتہ جمعے کو لندن برج پر حملہ کرنے میں کامیاب رہے۔

برطانوی عہدیداروں کا اصرار ہے کہ عثمان خان جن پر 2012 میں لندن سٹاک ایکسچینج میں بم دھماکے کی منصوبہ بندی کا الزام تھا، قید ہونے کے بعد انسداد انتہاپسندی کے حوالے سے پروگراموں پر عمل درآمد کرتے دکھائی دیتے تھے۔

ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ عثمان خان، انجم چوہدری کے المہاجرون نیٹ ورک کے سابق رکن تھے اور ایم آئی 5 ان کی نگرانی کر رہی تھی تاہم اسے کڑی نگرانی نہیں کہا جا سکتا تھا کیوں کہ وہ یہ جاننے میں ناکام رہے کہ وہ ایک اور دہشت گرد حملے کی تیاریوں میں مصروف ہے۔

برطانوی خفیہ ایجنسی کی کارکردگی پر سوالات

اس حملے نے ایم آئی 5 کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اس ادارے کو ماضی میں بھی تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب 2013 میں لی رگبی کا قتل ہوا اور 2017 میں لندن برج پر پہلی بار اسی طرز کا حملہ کیا گیا تھا۔

گذشتہ ماہ جاری ہونے والی ایک رپورٹ میں انگلینڈ اور ویلز کے چیف کورونر مارک لوکرافٹ کیو سی نے ایجنسی کے نظام کو مبہم اور ان کے جائزوں کو انتہائی ناقص قرار دیا تھا۔

مارک لوکرافٹ کیو سی نے کہا: ’میری رائے میں اس بات کا خطرہ ہے کہ آئندہ بھی اس طرح کی اموات ہوسکتی ہیں جب تک کہ اس کے سدباب کے لیے سنجیدہ کارروائی نہ کی جائے۔‘

دہشت گردی سے متعلق قانون سازی کے حوالے سے آزاد جائزہ کار لارڈ اینڈرسن نے بھی 2017 میں اسلام پسندوں کے حملوں کے بعد انٹیلی جنس کا جائزہ لینے کے بعد نظام میں بہتری لانے کا مطالبہ کیا تھا۔

جب کہ اس سے تین سال قبل پارلیمنٹ کی ’انٹیلی جنس اینڈ سکیورٹی کمیٹی‘ نے دہشت گردوں کی جانب سے تنہا اور غیر منظم طور پر کام کرنے اور ٹیکنالوجی کے استعمال کے بغیر حملوں کی منصوبہ بندی کو پکڑنے کی کوششوں میں موجود خلا کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔

 رائل یونائیٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کے سینیئر رکن رافیلیو نے بتایا کہ سکیورٹی سروسز نے منظم دہشت گرد نیٹ ورکس کے بعد تنہا کارروائی کرنے والے دہشت گردوں کو پکڑنے کے لیے کوششیں کی ہیں۔

انہوں نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: ’یہ (تنہا دہشت گرد) دہشت گردی کے خطرے کی نئی شکل ہے، جس کا ہمیں سامنا ہے اور میرے خیال میں اس کی غیر متوقع فطرت ہی اصل پریشانی ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’ایم آئی 5 نے تنہا دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ٹول تیار کیا ہے جس کے بارے میں مجھے شبہ ہے کہ وہ عام طور پر بہت موثر ہے تاہم اسے کامل نہیں کہا جا سکتا۔‘

2017 میں لندن برج کے حملہ آور خرم بٹ کا ابتدائی طور پر اس ٹول کے ذریعے پتہ لگا لیا گیا تھا تاہم حملہ کرنے کی ’کمزور قابلیت‘ کی درجہ بندی کے باعث خرم بٹ کی طرح عثمان خان کو بھی حملہ کرنے سے نہیں روکا جا سکا۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر عثمان خان حقیقی طور پر انسداد انتہا پسندی کے پروگراموں میں شامل تھے تو شاید انہیں ایک اور ذاتی بحران کا سامنا کرنا پڑا ہو، جس نے انہیں اس حملے کے لیے اُکسایا ہو۔

ان کا کہنا تھا: ’ظاہر ہے کہ انسداد انتہا پسندی کے پروگرام میں جو بھی سکھایا گیا تھا اسے برقرار نہیں رکھا گیا۔ اس سے وسائل کے بارے میں سوالات اٹھتے ہیں۔ انفرادی سطح پر ایسے افراد یا گروہ کو (انسداد انتہا پسندی جیسے پروگراموں) میں شامل رکھنے کی ضرورت ہو گی۔ ہمیں اس کی کئی دہائیوں تک ضرورت رہے گی۔‘

دی انڈپینڈنٹ کے مطابق عثمان خان کو ملٹی ایجنسی کے تحت عوامی تحفظ کے اقدامات کی اعلیٰ ترین سطح پر رکھا گیا تھا جس میں پولیس اور پروبیشن افسران بھی شامل تھے۔

انہیں 2012 میں نو رکنی دہشت گرد گروہ کے ساتھ لندن سٹاک ایکسچینج میں بم حملے کی منصوبہ بندی کرنے کے جرم میں قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

عثمان خان کو ابتدا میں میں عوامی تحفظ کے لیے غیر متعین مدت (یہ مدت کم سے کم آٹھ سال ہوتی ہے) کے لیے جیل بھجوایا گیا تھا۔

لیکن 2013 میں اپیل پر یہ سزا منسوخ کرکے 16 سال کی متعین مدت میں تبدیل کردی گئی، جس کا مطلب یہ تھا کہ انہیں آدھی سزا مکمل کرنے کے بعد گذشتہ دسمبر میں خودبخود رہا کردیا گیا۔

اس اپیل پر عدالتی فیصلے میں کہا گیا تھا کہ عثمان خان اور ان کے ساتھی ملزمان ’بنیاد پرست یا انتہا پسند مولویوں‘ کے زیرِ اثر چلے گئے تھے جس کے باعث وہ المہاجرون کے ساتھ شامل ہوگئے تھے۔

ججز نے بتایا کہ کس طرح عثمان خان نے پائپ بم بنانے کے بارے میں تبادلہ خیال کیا تھا اور وہ دوسروں کو بنیاد پرستی کی جانب راغب کرنے کی کوشش کر رہے تھے اور پاکستان میں ایک جہادی تربیتی کیمپ بنا رہے تھے۔

اکتوبر میں کمیشن برائے انسداد انتہا پسندی کی جانب سے شائع ہونے والے ایک مقالے میں متنبہ کیا گیا تھا کہ المہاجرون کے سابق کارکن اپنے عقائد پر قائم رہ سکتے ہیں۔

مائیکل کینی نے اس مکالمے میں لکھا تھا: ’وہ کسی بھی انسداد انتہا پسندی کے لازمی پروگرام کو گہری مشکوک نظر سے دیکھتے ہیں کیونکہ حکومت کی طرف سے ان کے خیالات پر قابو پانے کی کوشش اور انہیں اسلام کے بارے میں ’صحیح‘ اور ریاست سے منظور شدہ مفہوم کو قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ وہ اس طرح کے پروگراموں میں اپنی جبری شرکت کو اسی طرح دیکھتے ہیں جیسا وہ چھاپوں، گرفتاریوں اور دوسرے جبر کو محسوس کرتے ہیں۔

عثمان خان نے کیمبرج یونیورسٹی سے وابستہ انسٹی ٹیوٹ آف کریمنولوجی کی جانب سے منعقد کرائی گئی قیدیوں کی بحالی کی کانفرنس کے دوران چاقو سے ایک حملہ کیا تھا، وہ وہاں بطور مہمان شریک تھے۔

اس حملے میں دو افراد ہلاک ہوئے تھے۔ حملے کے متاثرین میں ’لرننگ ٹوگیدر‘ پروگرام کے کوآرڈینیٹر جیک میرٹ اور ان کی ایک رضا کار ساتھی شامل تھیں۔

خان نے یہ حملہ جمعے کے روز دوپہر 2 بجے کے قریب کیا جہاں مونگرز ہال میں موجود نمائندوں اور عملے نے ان کا مقابلہ کیا۔ تاہم لندن برج تک تعاقب کرنے تک مسلح پولیس کے اہلکاروں نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا