مقررہ مدت میں چیف الیکشن کمشنر تعیناتی نہ ہو سکی تو کیا ہو گا؟

عدالتی ڈیڈلائن اور آئینی طور پر چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی میں صرف دو دن باقی ہیں۔

22ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا جج یا کوئی سینیئر جج قائم مقام چیف الیکشن کمشنر نہیں بن سکتا بلکہ الیکشن کمیشن کا سینیئر ممبر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بننے کا اہل ہو گا۔(ٹوئٹر)

سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن اور آئین کی رو سے  چھ دسمبر تک نئے چیف الیکشن کمشنر اور ممبران کی تعیناتی لازم ہے۔ موجودہ چیف الیکشن کمیشنر جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان پانچ دسمبر کو اپنے عہدے سے سبکدوش ہوں گے۔ مقررہ مدت تک نیا چیف الیکشن کمشنر تعینات نہ ہونے کی صورت میں الیکشن کمیشن غیر فعال ہونے کا امکان ہے۔ 

حکومت اور حزب اختلاف کی جماعتوں کے درمیان اس معاملے پر تبادلہ خیال جاری ہے تاہم ابھی کسی ایک امیدوار پر اتفاق نہیں ہوا ہے۔

چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کیسے ہوتی ہے؟

سینیئر پارلیمانی صحافی خالد محمود نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کی جاتی ہے۔ اتفاق رائے نہ ہونے کی صورت میں وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی جانب سے بھیجے گئے نام پارلیمانی کمیٹی کو بھیجے جاتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اٹھارویں ترمیم سے قبل یہ ہوتا تھا کہ اگر معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں بھی حل نہ ہو تو کمیٹی سکروٹنی کے بعد منتخب کردہ دو نام صدر مملکت کو بھجواتی تھی۔ پھر صدر مملکت اُن دو ناموں میں سے ایک نام چیف الیکشن کمشنر کے لیے منتخب کرتے تھے۔ بصورت دیگر صدر مملکت حتمی نام کے چناؤ کے لیے چیف جسٹس آف پاکستان کو بھی معاملہ بھجوا دیتے تھے۔'

ترجمان الیکشن کمیشن الطاف احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اٹھارویں ترمیم سے قبل حتمی اختیار صدر مملکت کے پاس تھا اور چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی مدت تین سال تھی لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کی مدت تین سال سے بڑھا کر پانچ سال کر دی۔ اب معاملہ پارلیمانی کمیٹی برائے تقرر چیف الیکشن کمشنر نے ہی حل کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اتفاق رائے نہ ہوا تو نام تبدیل کر کے پارلیمانی کمیٹی دوبارہ معاملہ دیکھ سکتی ہے۔‘ ذرائع کے مطابق اگر اتفاق نہ ہوا تو معاملہ عدالت میں جانے کا امکان ہے۔

مقررہ مدت پرتعیناتی نہ ہونے کی صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟

چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی مقررہ مدت پر نہ ہو سکنے کی صورت میں ادارہ الیکشن کمیشن غیر فعال ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں تحریک انصاف فارم فنڈنگ کیس سمیت سینکڑوں کیسز التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔

بائیسویں آئینی ترمیم سے قبل یہ چیف جسٹس آف پاکستان کا اختیار تھا کہ اگر وہ چاہیں تو ادارے کو غیر فعال ہونے سے بچانے کے لیے سپریم کورٹ کے کسی بھی حاضر سروس جج کو چیف الیکشن کمشنر کا اضافی چارج دے سکتے ہیں۔ 

لیکن 22ویں آئینی ترمیم کے بعد سپریم کورٹ کا جج یا کوئی سینیئر جج قائم مقام چیف الیکشن کمشنر نہیں بن سکتا بلکہ الیکشن کمیشن کا سینیئر ممبر قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بننے کا اہل ہو گا۔ 

چیف الیکشن کمشنر کون بن سکتا ہے؟ 

ترجمان الیکشن کمیشن الطاف احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’1956 کے آئین کی رو سے چیف الیکشن کمشنر بننے کی اہلیت میں جسٹس ریٹائرڈ ہونا لازم نہیں تھا لیکن 1973 کے آئین کے مطابق چونکہ یہ آئینی عہدہ ہے، عدالتی معاملات بھی زیر غور ہوتے ہیں اس لیے چیف الیکشن کمشنر کی اہلیت کے لیے جسٹس ریٹائرڈ ہونا لازم قرار دیا گیا تھا لیکن چونکہ یہ انتظامی عہدہ بھی ہے اس لیے 2016 میں ہونے والی 22ویں ترمیم کے بعد اہلیت میں یہ شق بھی شامل کر دی گئی ہے کہ 20 سالہ تجربہ رکھنے والا بیوروکریٹ یا ٹیکنو کریٹ بھی چیف الیکشن کمشنر بننے کا اہل ہے۔ بائیسویں آئینی ترمیم کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کے عہدے کے لیے عمر کی حد 68 برس ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ترجمان مسلم لیگ ن مریم اورنگزیب کے مطابق اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے تین روز قبل تین نام وزیراعظم عمران خان کو بھیجے لیکن ابھی تک اُن ناموں پر غور نہیں ہوا۔ شہباز شریف ابھی لندن میں موجود ہیں اس لیے بذریعہ خط نام بھجوائے گئے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تعیناتی کے لیے اپوزیشن کی جانب سے منتخب کردہ تین ناموں میں جسٹس ریٹائرڈ ناصر کھوسہ، سابق سفیر جلیل عباس جیلانی اور ریٹائرڈ بیوروکریٹ اخلاق احمد تارڑ کے نام شامل ہیں۔ 

منگل کے روز پارلیمنٹ میں جب صحافیوں نے وفاقی وزیر اعظم سواتی سے سوال کیا کہ چیف الیکشن کمشنر کے لیے حکومت کی جانب سے تین نام کون سے ہیں تو انہوں نے جواب دیا کہ ’یہ وزیراعظم کا اختیار ہے وہی نام فائنل کریں گے۔‘ انہوں نے نام بتانے سے گریز کیا۔ 

سپریم کورٹ کی ہدایت پر آج پارلیمانی کمیٹی برائے تقرری الیکشن کمیشن کا اجلاس پارلیمنٹ میں ہوا۔ اس کمیٹی میں اپوزیشن اور حکومت دونوں کی نمائندگی ہوتی ہے۔ اجلاس کی صدارت وفاقی وزیر شیریں مزاری نے کی۔ منگل کو ہونے والے اجلاس میں چیف الیکشن کمیشن کے اراکان کی تعیناتی پر پھر ڈیڈ لاک پیدا ہو گیا۔ 

شیریں مزاری نے بتایا کہ ڈیڈ لاک اپوزیشن کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اپنے اپنے چیمبر میں اپنے رہنماؤں کو فون کر کے ہدایات لیتے رہے۔ حکومت نے اپوزیشن سے کہا کہ کل تک ناموں پر اتفاق رائے پیدا کریں۔ سندھ اور بلوچستان کے ممبر الیکشن کمیشن کا انتخاب بھی چھ دسمبر ہو گا۔ ذرائع کے مطابق بلوچستان کا ممبر الیکشن کمیشن حکومتی ناموں سے جبکہ سندھ کا ممبر الیکشن اپوزیشن کے دیے گئے ناموں سے چُنا جائے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان