پشاور میں فاطمہ جناح کی گرل گائیڈز پھر سے متحرک

گرل گائیڈز کو خواتین کی معاشی خود کفالت پروگرام کے تحت 150 کاروباری منصوبے موصول ہوئے جن میں سے تین کو انعام کے لیے منتخب کیا گیا اور انہیں مستقل راہنمائی بھی فراہم کی جائے گی۔

قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947 میں قائد اعظم نے پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن کے نام سے ایک علیحدہ شاخ بنائی جس کی صدر محترمہ فاطمہ جناح قرار پائیں۔(تصویر: سوشل میڈیا)

پشاور کلب میں  گرلز گائیڈ کے مقاصد کو اجاگر کرکے نوجوان خواتین میں شعور بیدارکرنے کے لیے کل ایک تقریب ہوئی جس میں تقریباً ایک ہزار سے زیادہ خواتین نے شرکت کی۔ 

اس تقریب میں صوبے کے مختلف اضلاع سے متحرک خواتین کو مدعو کرکے ان کے جدوجہد کی کہانی ان کی زبانی سنی گئی اور ساتھ ساتھ ان نوجوان خواتین کو خصوصی  موقع فراہم کیا گیا جو اپنا کاروبار شروع کرنے کی خواہاں تھیں ۔

 گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن کی صوبائی شاخ کی وائس پریزیڈنٹ فائزہ عادل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چند ہفتے قبل ان کی جانب سے مشتہر کیے جانے کے بعد صوبے کے  مختلف اضلاع سے  نوجوان خواتین نے ایک سو پچاس کاروباری منصوبے ارسال کیے تھے جن میں سے انہوں نے دس کو منتخب کر لیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ان دس گروپوں کو ہم نے بتایا کہ ہم کُل  تین منصوبے منتخب کریں گے۔ لہذا جس کا آئیڈیا سب سے اعلی ہوگا اس کو نہ صرف انعام دیا جائے گا بلکہ اس کی مستقل بنیادوں پر راہنمائی بھی کی جائے گی۔ ہمارا مقصد صرف  ان خواتین کو مواقع  فراہم کرنا تھا جن کے پاس آئیڈیاز تو ہوتے ہیں لیکن وہ اس میدان میں بالکل ہی اناڑی ہیں۔ انہیں کچھ پتہ نہیں ہوتا کہ کہاں سے مدد لینی ہے اور کیسے اپنے کاروباری منصوبے کو آگے لے کر جانا ہے۔‘

فائزہ عادل نے بتایا کہ خواتین کی حوصلہ افزائی کے لیے انہوں نے پہلے ، دوسرے اور تیسرے نمبر پر آںے والی خواتین کے لیے بالترتیب ڈیڑھ لاکھ، ایک لاکھ اور پچاس ہزار کا انعام بھی رکھا تھا۔

 ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک سو پچاس کاروباری منصوبوں کا سامنے آنا ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ انہوں نے کہا  کہ اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس صوبے میں خواتین روزانہ کی بنیاد پر اپنے تئیں ایک جدوجہد سے گزر رہی ہیں ۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کو مواقع نہیں مل پاتے۔ ’ایک سو پچاس آئیڈیاز میں سے دس اور پھر تین کا انتخاب کرنا ایک مشکل کام تھا کیوں کہ سب خواتین نے نہ صرف ایک کوشش کی تھی بلکہ اس پر کافی محنت بھی کی تھی ۔ اس کے علاوہ دس گروپوں نے پریزینٹیشن بھی بہت اچھی دی۔‘

صوبائی گرلز گائیڈ  ایسوسی ایشن کی وائس پریذیڈنٹ کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جب انہوں نے پہلے سیزن کی تقریب کی تھی تو خواتین کی تعداد اتنی زیادہ نہیں تھی  جس کی وجہ انہوں نے بجٹ کی کمی بتائی۔

’زیادہ سے زیادہ خواتین کو شامل کرنے کے لیے اور اس تقریب کو زیادہ پرااثر بنانے کے لیے ہمیں حکومتی امداد اور تعاون کی ضرورت تھی۔ ہماری درخواست پر ڈائریکٹوریٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی اور ٹورازم و کلچر کارپوریشن  والوں نے کھلے دل سے ہماری مدد کرنے کی یقین دہانی کروائی اور اتنے بڑے پیمانے پر تقریب منعقد کرنے میں کافی مدد کی۔

تقریب میں شامل ایک خاتون ہما عزام   نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج بھی اس صوبے کی خواتین کو اپنا آپ منوانے اور کچھ کرنے  کے لیے  کئی مشکلات سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ ’اس صوبے میں موجود عمومی منفی رویے اس کی بڑی وجہ ہے۔ نتیجتاً خواتین اپنے خول سے باہر نہیں نکلتی ہیں اور اس لیے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ میں تو یہ کہوں گی کہ جب تک حالات ایسے رہیں گے اس صوبے کے  خواتین  کی اکثریت کو مزید ایک صدی لگے گی  آگے جانے میں۔ بات تلخ ہےلیکن سچ ہے۔‘

تقریب میں موجود یونیورسٹی کی ایک طالبہ حرا خان کا کہنا تھا کہ کامیاب خواتین کی جدوجہد  کے قصے سن کر احساس ہوا کہ کیسے خواتین خود بھی اکثر اپنی جھجھک اور ڈر کی وجہ سے اپنے  لیے رکاوٹ کھڑی کر لیتی ہیں ۔ 

فائزہ عادل جو خود بھی تقریب کے دوران  سفید یونیفارم اور سبز دوپٹے میں ملبوس تھیں، انہوں نے گرلز گائیڈ  ایسوسی ایشن پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’دراصل گرلز گائیڈ کا ڈریس کوڈ سفید یونیفارم اور سبز دوپٹہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ گرلز گائیڈ 1911 میں وجود میں آیا تھا۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد دسمبر 1947 میں قائد اعظم نے پاکستان گرلز گائیڈ ایسوسی ایشن کے نام سے ایک علیحدہ شاخ بنائی جس کی صدر محترمہ فاطمہ جناح قرار پائیں۔ اسی سال خیبر پختونخوا (اس وقت کا شمال مغربی سرحدی صوبہ ) میں صوبائی شاخ کا آغاز ہوا۔ اور1962 میں پشاور میں گرلز گائیڈ کا افتتاح بدست فاطمہ جناح ہوا۔‘

اس افتتاح کی عینی شاہد اور بلیو برڈ ( اس زمانے میں گرل گائیڈز کی ذیلی تنظیم) کی ممبر مسز تنویر جمال نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’انہیں فاطمہ جناح کا پشاور آنا اب بھی یاد ہے۔ فاطمہ جناح کو ڈین ہوٹل میں ٹھہرایا گیا تھا اور پشاور کے علاقے ڈبگری میں الزبتھ سکول سے قریب اس مقصد کے لیے گائیڈ ہاؤس بنایا گیا تھا۔ وہیں فاطمہ جناح نے گرلز گائیڈ کا افتتاح کیا تھا۔ تنویر جمال نے بتایا کہ ان کی دونوں بڑی بہنیں اس وقت گرل گائیڈ تھیں اور وہ عمر کم ہونے کی وجہ سے بلیو برڈ میں رکنیت رکھتی تھیں۔‘

فائزہ عادل نے بعد کی صورت حال پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ’مختلف وجوہ کی بنا پر گرلز گائیڈ اس صوبے میں متحرک نہیں رہا۔ تقریباً کسی کو یاد بھی نہیں رہا تھا کہ ایسی کوئی تنظیم کبھی تھی بھی۔ پچھلے سال میں نے، محترمہ تسنیم ظاہر شاہ (پریذیڈنٹ) اور سنان سیٹھی نے مل کر اس کو دوبارہ فعال کرنے کا تہیہ کر لیا۔ اصل میں ہم اس صوبے کی خواتین کے لیے کچھ کرنا چاہ رہے تھے۔ چونکہ گرلز گائیڈ ایک قومی تحریک ہے جس کا بنیادی مقصد خواتین کو پلیٹ فارم دینے کے ساتھ ساتھ انہیں بااختیار بنانا اور ان میں شعور بیدار کرنا ہے لہذا ہمیں کوئی دوسری تنظیم شروع کرنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ گرلز گائیڈ کے زیر سایہ ہم نے ایک اور شاخ کھول دی جسے ہم نے ’پروانِ خانم ‘ نام دیا۔ اس کا مطلب ہے خواتین کو ترقی دینا۔‘

گرلز گائیڈ کو ملک کے کونے کونے تک پھیلانے کے لیے خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں میں گرلز گائیڈ ہاوسز بھی ماضی میں بنائے گئے تھے جن میں اکثر یا تو دوسرے مقاصد کے لیے استعما ل ہورہے ہیں اور یا ان کی عمارتیں خستہ حال ہونے کی وجہ سے قابل استعما ل نہیں رہی ہیں ۔ فائزہ عادل کے مطابق  وہ اور ان کی ٹیم  ان ہاوسز کو فعال بنانے کے لیے کوشاں ہیں ۔ یہ گرلز  گائیڈ ہاوسز کوہاٹ، بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان، مردان، ملاکنڈ، سوات اور ہزارہ میں واقع ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس