طالبان بھارت پہنچ گئے

اس وقت بھارت کی ہر گلی اور ہر کوچے میں ہندو طالبان نظر آرہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ افغان والے اسلام کا حوالہ دے رہے تھے اور بھارت والے ہندومت کا۔

(اے ایف پی)

افغانستان میں طالبان کی حکومت تقریباً چھ سال رہی لیکن افغان اعتدال پسندوں کے مطابق اس اسلامی تحریک نے وہاں کے معاشرے پر جس طرح کے نقوش چھوڑے ہیں اس سے مستقبل کی تقریباً چھ سو افغان نسلیں متاثر ہوتی رہیں گی۔

جب جب یا جہاں جہاں دنیا میں ہجومی تشدد یا ماورائے عدالت انصاف ہوتا ہے تب تب اور وہاں وہاں طالبان کا ذکر کیا جاتا ہے۔ آج کل بھارت میں بھی طالبان کو بار بار یاد کیا جاتا ہے جہاں قوانین کی پاسداری ختم ہو رہی ہے، امن عامہ قائم رکھنے کا عمل کمزور پڑ رہا ہے یا انصاف فراہم کرنے والے اداروں کا مذاق اڑا کر ہجومی تشدد سے حساب چکتا کر دیا جاتا ہے۔ ستم یہ کہ اس صورت حال پر ماتم کرنے کی بجائے تالیاں بجائیں جا رہی ہیں، مٹھائیاں بانٹی جا رہی ہیں اور قاتلوں کو ہیرو بنایا جاتا ہے۔ بعد میں ایسے ہی مجرموں کو پارلیمان میں بٹھا کر سوا ارب آبادی کی تقدیر کا مالک بنا دیا جاتا ہے۔

ایسا لگ رہا ہے کہ بھارت میں طالبان کا راج قائم ہوا ہے جہاں عورت انتہائی غیرمحفوظ ہو گئی ہے، اقلیتیں خوف میں مبتلا ہیں اور مذہب کو بنیاد بنا کر ہندو راشٹر میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ یہ وہ لوگ کر رہے ہیں جن کی پالیسیاں مسلمان دشمن ہی نہیں بلکہ انسانیت دشمن اور ہندو دشمن بھی ہیں۔

  طالبان کہتے تھے کہ وہ اسلام کے مطابق ملک کو چلائیں گے لیکن انہوں نے اپنے دور حکومت میں جس طرح سے انصاف کے ترازو کا استعمال کیا اس سے نہ صرف دنیا بھر میں ان کے لیے نفرت پیدا ہوئی بلکہ دنیا کو اسلام کو غلط رنگ میں پیش کرنے کا جواز بھی۔ پھر جب اسلام دشمن عناصر نون میں نکتہ ڈھونڈنے کی تاک میں رہتے ہوں تو انہیں اس کی آڑ میں دہشت گردی کو اسلام کے ساتھ جوڑنے میں ذرا دیر نہیں لگی جس کی سزا آج بھی پورا عالم اسلام بھگت رہا ہے۔

دنیا کی بڑی جمہوریت کہلانے والا ملک بھارت بھی آج کل افغانستان کا روپ دھار رہا ہے۔ اس کے حکمرانوں نے طالبان کا طوق پہن کر وہیں کچھ کرنے کی ٹھان لی ہے جو افغان عوام بھگت چکے ہیں مگر جس طرح دنیا نے طالبان کے خلاف ایک وسیع مہم شروع کی تھی وہ بھارت کے خلاف نظر نہیں آتی ہے۔ اس پر بڑی طاقتوں نے چپ سادھی ہے بلکہ اپنے باہمی تعلقات کو مزید فروغ بھی دے رہے ہیں۔ حالانکہ سرمایہ کاری یا تجارتی لین دین کے لیے خوشگوار ماحول درکار ہوتا ہے جو بھارت میں ناپید ہونے لگا ہے۔

جب طالبان نے سنہ 2001 میں بامیان کے مقام پر مہاتما بدھ کے سب سے بڑے اور قدیم مجسمے کو تباہ کر دیا تو ان کی مذمت میں پوری دنیا متحد ہوگی۔ یہ بعد میں طالبان کے خاتمے کی بڑی وجہ بھی بن گئی۔ ان میں مسلم ممالک بھی شامل تھے جو بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں پر نہ صرف خاموش ہیں بلکہ ظلم کرنے والوں کو انعامات سے نوازاتے بھی ہیں۔

سنہ 1992 میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہزاروں کارکنوں نے بابری مسجد کو مسمار کر کے ہندو دہشت کو مضبوط کر دیا۔ سال رواں میں سپریم کورٹ کے ذریعے اس مقام کو رام مندر قرار دلوایا گیا، دنیا کے کسی حصے میں کہیں چیں بھی نہیں ہوئی اور بھارت کے بیشتر علاقوں میں کٹر ہندوؤں نے جشن منایا۔ اگر مسلمانوں نے کسی ملک میں اقلیت کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہوتا تو اسلامی دہشت گردی کا لیبل چسپاں کر کے اس کے خلاف عالمی مذمت کا سلسلہ کبھی نہ تھمتا۔

دو ہزار سترہ میں طالبان کے ایک گروہ نے ایک عورت کو زنا کے الزام میں سنگسار کیا تو حقوق انسانی کے عالمی اداروں نے ہاہاکار مچا کر فتوی تک جاری کر دیا کہ مسلمانوں میں مذہبی جنونیت اتنی رچی بسی ہے کہ وہ عورت کے ساتھ وحشیانہ سلوک کرنے سے نہیں کتراتے۔ حالانکہ اسلام کا اس سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جدید ڈیجٹل دنیا میں ہر سات منٹ میں بھارت میں ایک ریپ ہوتا ہے، ریپ متاثرہ کو جلانا، تیزاب سے مسخ کرنا یا پورے خاندان کو قتل کرنا ایک معمول بنتا جا رہا ہے۔ پھر مجرموں کو قانون سزا نہیں دیتا بلکہ پولیس اینکاونٹر (مقابلہ) کر کے فوری کارروائی کی جاتی ہے۔ لوگ اینکاونٹر کرنے والی پولیس کے لیے تالیاں بجاتے ہیں۔

ہندوتوا کے لاکھوں کارکنوں نے خوف و ہراس کی فضا اس وقت سے قائم کی ہے جب درجنوں مسلمانوں اور دلتوں کو ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا - کبھی گائے کے گوشت کھانے پر یا کبھی وندے ماترم نہ پڑھنے پر یا کبھی جبری طور جے سری رام کہنے پر۔۔۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ کسی عالمی ادارے، ملک یا قوم نے آج تک بھارتی حکومت سے اس زیادتی کے لیے جواب طلب نہیں کیا اور نہ حقوق انسانی کی خلاف ورزی کا واویلا مچایا جیسا کہ مسلم ممالک کے خلاف کیا جاتا ہے۔ مسلمان مملکتوں کے خلاف فورا اقتصادی پابندیاں عائد کی جاتی ہیں مگر مسلمانوں کے قتل عام پر کوئی تشویش نہیں، پابندیوں کی تو بات ہی نہیں۔

اس وقت بھارت کی ہر گلی اور ہر کوچے میں ہندو طالبان نظر آرہے ہیں فرق صرف یہ ہے کہ افغان والے اسلام کا حوالہ دے رہے تھے اور بھارت والے ہندومت کا۔ ان کٹر پرستوں نے انصاف کے اداروں میں جس طرح کی سوچ پیدا کی ہے اس سے 22 کروڑ مسلمان خوف میں مبتلا ہیں۔ نیشنل رجسٹریشن سرٹیفکیٹ ہو، ایودھیا میں رام مندر کی تعمیر ہو، شہریت کی تصدیق کرانے کا بل ہو یا آرٹیکل 370 کو ختم کرنے کا فیصلہ ہو، یہ سب مسلمانوں کو ہراساں کرنے کے اقدامات ہیں۔ مغربی جمہوریتیں خاموش ہیں اور کروڑوں متاثرین خود کو بے یارو و مددگار محسوس کر رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ