ہسپتال ہنگامہ آرائی:46 وکلا چہرے ڈھانپ کرعدالت میں پیش

گرفتار وکلا جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیے گئے۔ حکومت، وکلا اور ڈاکٹروں میں ڈیڈلاک برقرار، کوئی بھی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں۔

وکلا کی پیشی کے موقعے پر عدالت کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے(ارشد چوہدری/انڈپینڈنٹ اردو)

پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی لاہور میں بدھ کو توڑ پھوڑ او ر ہنگامہ آرائی کے بعد حکومت، وکلا اور ڈاکٹروں کی تنظیموں میں ڈیڈلاک برقرارہے اور کوئی بھی فریق اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیارنہیں۔

دوسری جانب سی سی ٹی وی فوٹیج کی مدد سے ہنگامہ آرائی میں ملوث وکلا کی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔

گذشتہ رات پولیس نے متعلقہ تھانے شادمان میں دو مقدمات درج کیے۔ ایک مقدمہ ڈاکٹروں جبکہ دوسرا پولیس کی مدعیت میں درج ہوا۔ ڈاکٹروں نے گرفتار وکلا کے خلاف پولیس کو ثبوت بھی پیش کیے۔

ڈاکٹروں نے آج (جمعرات) پی آئی سی کے او پی ڈی میں ہڑتال کر رکھی ہے جس سے مریضوں اور ان کے لواحقین کو شدید مشکلات کا سامنا ہے، پی آئی سی کی ایمرجنسی تاحال بند ہے۔

ڈاکٹروں کی تنظیم پی ایم اے نے واقعے کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے ہسپتالوں کی سکیورٹی یقینی بنانے کا مطالبہ کیاہے۔

ڈی آئی جی رائے بابر سعید کے مطابق 50 وکلا گرفتار کیے گئے جن میں سے چار خواتین وکلا کو رہا کردیا گیا اور آج بھی گرفتاریوں کا سلسلہ جاری رہا۔

آج ہنگامہ آرائی میں الزام میں گرفتار 46وکلا کو سر اور چہرے کالے کپڑوں سے ڈھانپ کر انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کرتے ہوئے 15 روز ہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی گئی، لیکن عدالت نے استدعا مسترد کرتے ہوئے وکلا کو14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا۔

وکلا کی پیشی کے موقعے پر عدالت کے اطراف میں سکیورٹی کے سخت انتظامات تھے اور شادمان مارکیٹ اور چائنہ چوک کو بلاک کر کے راستہ بند کر دیا گیا تھا۔

رکن پاکستان بار کونسل عابد ساقی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئےکہا کہ لاہور میں گرفتار وکلا کی رہائی، زخمیوں کو طبی امداد کی فراہمی اور مقدمات خارج کرانے کے لیے رٹ پٹیشن تیار کر لی ہے ،جوجمعے کولاہور ہائی کورٹ میں دائر ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی سی میں ہنگامہ آرائی کی ذمہ داری صرف وکلا پر نہیں ڈالی جاسکتی بلکہ ڈاکٹروں کے رویے اور پولیس کی ناکام حکمت عملی کو بھی دیکھنا ہوگا۔

انہوں نے کہاکہ اب کوشش ہے کہ معاملہ افہام وتفہیم سے حل ہوجائے۔’ ہم متاثر ہونے والے مریضوں اور ان کے لواحقین سے معذرت بھی کر چکے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان بار کونسل کی کال پر ملک بھر میں وکلا نے جمعرات کو عدالتی بائیکاٹ کیا۔اس کال پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں بار کےجنرل سیکریٹری بار عمیر بلوچ نے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی عدالت میں وکلا کو دلائل دینے سے روک کر بائیکاٹ کی ہدایت کی تو چیف جسٹس نے توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ عدالتیں ہڑتال کو نہیں مانتیں، کارروائی کو روکنا توہین عدالت ہے، فاضل جج نے انہیں 19دسمبرکو طلب کر لیا۔
 
عمیر بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بار کونسل کی کال پر ہڑتال ان کی ذمہ داری ہے۔ ’ہم نے کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا وکلاکو عدالتی بائیکاٹ کے لیے درخواست کرنا روایتی ہے لیکن چیف جسٹس صاحب نے اس پر اعتراض کیا اور توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا ،لیکن میں اپنے موقف پر قائم ہوں ۔‘

انہوں نے کہا اس حوالے سے لائحہ عمل مشاورت سے تیار کریں گے اور 19دسمبر کو ضرور پیش ہوں گے کیونکہ جج صاحبان بھی بارز سے ہی جج بنتے ہیں، انہیں وکلا  اداروں کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے۔

مذاکراتی عمل
حکومت،پولیس،ڈاکٹروں اور وکلا کے نمائندوں کے درمیان جمعرات کو ہائی کورٹ میں ہونے والا مذاکراتی عمل کسی حتمی نتیجے کے بغیر ختم ہو گیا۔

مذاکراتی ٹیم میں شامل عابد ساقی نے بتایاکہ انہوں نے ہسپتال انتظامیہ اور ڈاکٹروں کے نمائندوں کو سمجھانے کی کوشش کی اور کہا کہ وہ وکلا کے خلاف مقدمات واپس لے لیں ۔

ان کا کہنا تھا کہ  دہشت گردی جیسے سنگین دفعات کے مقدمات واپس لیے بغیر حالات معمول پر کیسے لائے جاسکتے ہیں؟ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کے پاس بھی ویڈیوز موجود ہیں جن میں ڈاکٹروں نے وکلا پر تشدد کیا اور کئی وکلا زخمی بھی ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان