ایسے ٹوٹ کے برسے اولے، پُشتیں ہو گئیں لال

آج بھی کبھی بادل زور سے گرجتا ہے تو نہ جانے کیوں بےاختیار پشت پر لگے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ 

(پکسابے)

آج کل بارشوں کا زمانہ ہے، اِن کے سبب بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا، وہ بھی سُن لیجیے۔ ہمارے گھر میں چار بھینسیں ہوتی تھیں، ابا میاں عراق میں تھے، وہاں کام کرتے تھے، تب ہم چاربھائی اور ایک بہن تھے۔

بہن تو سکول جاتی پھر گھر میں رہتی۔ چوتھا بھائی بہت چھوٹا تھا۔ ہم تین بھائی ذرا بڑے تھے، یہی کوئی دس سے بارہ سال کی عمریں تھیں۔ مَیں سب سے بڑا تھا، مجھ سے چھوٹا علی اصغر مرحوم 10 سال کا تھا اور اُس سے چھوٹا افضل آٹھ سال کا۔ ہم تینوں بھائی سکول جانے سے پہلے اور سکول سے آنے کے بعد بھینسوں کی دیکھ بھال میں پھنسے رہتے تھے۔ کبھی اُن کے واسطے چارہ لانا، کبھی نہر پہ لے جا کر نہلانا اور پانی پلانا۔

بھینسوں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ بندہ خود تو بھوکا رہ سکتا ہے اُنھیں نہیں رکھ سکتا۔ ایک دن ہوا یہ کہ سردیاں کڑاکے کی تھیں اور آج سے تیس سال پہلے ہر سردیاں ہی کڑاکے کی ہوتی تھیں۔ یوں زمین پر سفید برف جم جاتی تھی۔ تالابوں اور نالوں پر برف کی پپڑیاں پڑی ہوتی تھیں۔ ہاتھ باہر نکالتے ہی ٹھٹھرتے اور گلے کو لگنے کی کرتے۔

ہوا یہ کہ ہم تینوں بھائی سکول سے پڑھ کر آئے، بادل ہر طرف گہرے چھائے تھے یوں جیسے رات کالی نکلی آئی ہو۔ اِدھر ہم تینوں بھائیوں نے بستے گھر میں رکھے اور گدھی پر واہنا رکھا۔ اماں ہماری کہتی رہ گئیں، ابھی کچھ دیر سانس لے لو، بادلوں کا بہت زور ہے، یوں نہ ہو کہ باہر نکلو تو برس پڑیں۔ مگر ہم تب بالکے ہٹ دھرمی اور ضد کے پتھر ہوتے تھے اپنی جگہ جو پکڑتے تھے تو نہ چھوڑتے تھے۔ ہمیں یہ تھا کہ جلد جلد چارہ کاٹ لائیں اور فارغ ہو کر کھیلنے کو جائیں۔

سردیوں کے دن یوں بھی چھوٹے ہوتے ہیں۔ ذرا دیر کرتے تو شام ہو جاتی۔ ہم نکل پڑے۔ ایک گدھی ہمارے ساتھ تھی۔ گاؤں سے ڈیڑھ کلو میٹر دور ہمارا چارے کا کھیت تھا۔ وہاں پہنچ گئے۔ عین اُسی وقت بادلوں نے ببر شیر کی طرح گرجنا شروع کر دیا۔ اُن کی دھڑک ایسی تھی کہ جان دہلاتی تھی اور ہم بالکے دہلتے تھے۔ ارد گرد آدمی نہ آدمی ذات۔ سردی کا مقام الگ۔

تب گاؤں کے ارد گرد اور خود گاؤں کی سڑکیں بھی کچی ہوتی تھیں۔ ایک ذرا بارشوں کا زمانہ آیا نہیں کہ ہر طرف کیچڑ کے گھمسان ہو گئے، پھر تو کوئی یہاں پھنسا کوئی وہاں پھنسا۔ ہم جلدی جلدی اپنے کھیت سے چارا کاٹنے لگے لیکن ابھی تھوڑا ہی کاٹا تھا کہ بارش کے تریڑے برسنے لگے۔ لیجیے ایک تو سردی، دوسری ٹھنڈی بارش اور تیسرا ہم گھر سے باہر، یہ کہ عمریں چھوٹی چھوٹی اور نہایت نازک لڑکے، جان کے لالے پڑ گئے۔ ارد گرد سر چھپانے کو کوئی جگہ نہ تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بارے ایک خیال جی میں آیا۔ ہم نے گدھی کے اُوپر سے واہنا اُتار کر اُس واہنے کے اوپر یعنی کوہان کی جگہ پر وہ گدیاں رکھ دیں جنھیں گدھی پر رکھا جاتا ہے، پنجابی زبان میں اُن گدیوں کوجُھل کہا جاتا ہے۔ یوں واہنے کا درمیانہ حصہ ایک چھوٹا سا خیمہ بن گیا۔ اِس خیمے میں ہمارے بس سر ہی آ سکتے تھے۔ ہم اپنے سر اُن میں ڈال کر تینوں اُلٹے لیٹ گئے۔ شاید قدرت کو ہمارے سر بچانے مقصود تھے اور اُسی انتظار میں تھی کہ اچانک بارش کی بجائے یہ بڑے بڑے اولے پڑنے شروع ہو گئے۔ یہ اولے کوئی پاؤ پاؤ بھر کے ایسے تھے جیسے آسمان سے سفید پتھر برس رہے ہوں۔

اب کیا تھا، سر تو خیر ہمارے بچے ہوئے تھے کہ اُن کے اوپر واہنا اور جھل تھا مگر پُشتیں اور کمریں اور ٹانگیں کھلے آسمان میں تھیں اور ہم نازک لڑکے۔ اولے ہماری پُشتوں اور ٹانگوں پر برسنا شروع ہو گئے۔ بادل تھے کہ مست ہاتھیوں کی طرح چڑھے چلے آ رہے تھے اور لگتا تھا کہ بس آج نوح کا طوفان اور دنیا کی ساری برف یہیں برسے گی۔ اولے ہماری پُشتوں پر گولوں کی طرح لگتے تھے اور درد سے ہماری چیخیں آسمانوں کو بلند ہوتی تھیں۔

ہمیں تب تو ہوش نہیں تھا کہ کیا ہو رہا ہے مگر اُس وقت جو واحد پکار کسی کو کی جا سکتی تھی وہ اللہ میاں ہی تھا لیکن وہ بارش اور اولوں کے شور میں سُن نہیں رہا تھا۔ ہماری گدھی پورے کھیت میں اڑنگے مارتی پھرتی تھی۔ اولوں کے بم اُس پر تو کھلے عام برس رہے تھے۔ اُس بچاری کو خبر ہی نہیں تھی یہ آج کیا ہو رہا ہے۔ بھئی کچھ نہ پوچھو، اُن دنوں جنرل ضیا کے مجرموں کو بھی کوڑے لگتے تھے مگر اُن کی حیثیت اِن اولوں کے سامنے خاک نہیں تھی۔ ایک سے بڑھ کر ایک ضرب کولہوں پر لگتی تھی اور ہم چیختے تھے۔ اُس وقت واحد نصیحت جو ہمیں یاد آ رہی تھی وہ ہماری اماں کی تھی۔ کاش سُن لیتے اور بچ جاتے۔ دس منٹ تک تو یہی سامان رہا گویا ہمیں نافرمانی کے مسلسل کوڑے مارے گئے ہوں۔ پھر یہ اولے تھم گئے اور منٹوں میں پوری دنیا برف زار ہو گئی۔ درد سے ہمارے جسم بے جان ہو چکے تھے اور گویا موت کا سا سامان بن گیا تھا۔

کچھ دیر تو ہم اُٹھ ہی نہیں سکے۔ گدھی ہماری اللہ جانے کہاں بھاگ گئی تھی۔ ہمارے ارد گرد برف کی ایک فٹ کی تہیں جم گئی تھیں اور ہم اُس میں دفن ہوئے پڑے تھے۔ سردی ایسی تھی کہ اللہ بچائے، مجھے سب سے زیادہ فکر چھوٹے کی تھی۔ اُس کی تو آخر میں چیخیں بھی نکلنا بند ہو گئی تھیں اور مَیں ایک تو خود روتا تھا دوسرا اُس کے لیے روتا تھا۔ ہمارے جسم نیلے پڑے جاتے تھے اور زبانیں بند ہوئی جاتی تھیں۔ قدم اٹھ نہیں سکتا تھا۔ مَیں سب سے پہلے اٹھا پھر اپنے دونوں بھائیوں کو اُٹھایا۔ وہ ادھ موئے ہو چکے تھے اور اکڑ سے گئے تھے۔ ہم تینوں ایک درخت کے پاس جیسے تیسے آئے اور ایک ہی دم بیٹھ گئے۔ ٹانگیں چلنے سے جواب دے چکی تھیں۔

اتنے میں دور سے کیا دیکھتے ہیں کہ ہماری ماں دوڑی چلی آتی ہے۔ ہمیں اُس کو دیکھ کر کچھ حوصلہ ہوا۔ سڑک کچی تھی، کیچڑ اور برف کے سبب اُس کے پاوں ٹھیک طرح سے نہیں پڑ گئے تھے مگر وہ ایسے دوڑتی آتی تھی جیسے اونٹنی اپنے بچوں کے لیے بے چین ہو کر بھاگتی ہے۔ گاؤں سے ہمارے کھیت کا فاصلہ کم از کم آدھے گھنٹے کا تھا۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اُسی وقت گھر سے نکل پڑی ہو گی جب اولے پڑنا شروع ہوئے ہوں گے تبھی تو اتنی جلدی پہنچ گئی اور سب اولے راستے میں اُس کے اوپر برسے تھے ۔ قریب آ کر اُس نے ہم تینوں کو ایک دم اپنے سینے سے لگا لیا۔ اُس کی آنکھوں سے آنسو بے اختیار بہہ رہے تھے، اور کہہ رہی تھی، ’ماں صدقے جائے، ماں مر جائے، میرے بیٹوں کے سر پر سارے اولے برسے ہیں۔‘

میری ماں نے وہیں سے میرے سب سے چھوٹے بھائی کو پہلو میں دبایا اور اُس سے بڑے کو کاندھے پر سوار کیا اور میری انگلی پکڑ کر گویا گھر کی طرف بھاگ ہی اٹھی۔ کچھ نہ پوچھو ہم کتنی مشکلوں سے گھر پہنچے۔ ایک دم آگ جلائی اور ہمیں اُس کے سامنے بٹھا دیا۔ جب تپش پہنچنے لگی تو جان میں دم آیا۔ تب اُس نے دودھ گرم کیا، اُس میں انڈے ڈالے اور ہمیں پلایا۔ اِس سے ہمارے ہوش بحال ہوئے۔

اُن دنوں مکان کچا تھا۔ کچے مکان کے اندر آگ جلے تو گویا ہیٹر جل جاتے ہیں۔ ہم بھی سردی سے نکل آئے ۔ لیکن رات کو ہم تینوں کو پھر بخار نے پکڑ لیا۔ یوں ایک ہفتہ تک ہمارا نزلہ، بخار اورکھانسی جاری رہا مگر اِس میں ہم بہت خوش تھے کہ سکول سے پورا ایک ہفتہ جان چھٹی رہی تھی۔ اِن دِنوں بھینسوں کے چارے کے لیے ہم نے ایک ملازم رکھ لیا۔

آج بھی کبھی بادل زور سے گرجتا ہے تو نہ جانے کیوں بےاختیار پشت پر لگے زخم ہرے ہو جاتے ہیں۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی