سولہ دسمبر 2014 کے پانچ سال بعد پشاور میں سانحہ آرمی بپلک سکول (اے پی ایس) میں محفوظ رہ جانے والے بعض طلبہ اب دھیرے دھیرے عملی زندگی کی دوڑ میں شامل ہونے لگے ہیں۔ مقتل گاہ بننے والے اس تعلیمی ادارے کے طلبہ کی کہانیاں آج بھی دلچسپ اجزا لیے ہوئے ہیں۔
اس سانحے کی خبر بننے والے طلبہ میں سے ایک طالب علم محمد رضوان یوسفزئی ہیں جو اس کم عمری میں زندگی کے کئی نشیب وفراز دیکھنے کے بعد اب خود خبر دینے والوں میں شامل ہو گئے ہیں۔
اے پی ایس کا دلخراش واقعہ 16 دسمبر 2014 کو پیش آیا تھا جب صبح علم کے حصول میں مصروف طلبہ 10 بجے کے وقت سات دہشت گردوں کا نشانہ بنے تھے۔ یہ وہ دن تھا جس کا سورج حسین تمناؤں اور دلفریب ارمانوں کے سنگ طلوع ہوا مگر غروب 132 معصوم و بےقصور بچوں کے لہو کے ساتھ ہوا۔ یہ وہ واقعے تھا جس نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے اور انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ شفاف اورغیرجانبدارتحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے۔
چنانچہ اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس ثا قب نثار نے پشاور ہائی کورٹ کو تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا۔
آرمی پبلک سکول کا کل کا یہ طالب علم رضوان یوسفزئی پاکستان کے ایک نجی نیوز چینل کا حصہ بن چکا ہے لیکن اپنے مختصر الیکٹرانک میڈیا کے سفر میں انھیں اب بھی پشاور کے کسی تعلیمی ادارے کی رپورٹنگ بہت کٹھن لگتی ہے۔
’میں آج بھی پشاور کے کسی سکول، کالج یا یونیورسٹی میں کوریج کے لیے جاؤں تو خود کو انجانے اندیشوں میں گھرا پاتا ہوں۔‘ رضوان یوسفزئی بتاتے ہیں کہ ان کی یہ کیفیت شاید اس وجہ سے ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد انہوں نے انٹرمیڈیٹ کا باقی ماندہ ڈیڑھ برس اے پی ایس میں ان دیکھے خوف میں گزارا۔
’میں اس عرصے کو یاد نہیں رکھنا چاہتا تھا شاید اسی لیے میں انٹر کرنے کے بعد پشاور کے کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لینے کی بجائے فوج میں کمیشن لینے کے لیے تڑپ رہاتھا۔‘ رضوان یوسفزئی بتاتے ہیں کہ وہ فوج کا حصہ بن کر اپنی ساری زندگی ان دہشت گردوں کے خلاف جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتا تھا جنہوں نے ان کے کالج میں ان کے دوستوں کا خون بہایا۔
رضوان یوسفزئی کے والدین چاہتے تھے کہ ان کا برخوردار پشاور میں مزید تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے لیکن وہ مزید پڑھنے سے اس لیے کتراتا رہا کہ وہ پھر کسی تعلیمی ادارے میں بیٹھ کر ان دیکھے خدشات کا شکار نہیں ہونا چاہتا تھا۔
والدین نے رضوان کو فوج میں کمیشن حاصل کرنے کی کوشش کرنے کی اجازت دے دی لیکن وہ اوپر تلے دو بار NOT RECOMMENDED کا تمغہ سینے پر سجائے واپس آ گیا۔ رضوان کے والد کا کہنا ہے کہ ’اے پی ایس کے واقعے کے بعد اپنے بیٹے کا شوق دیکھتے ہوئے میں نے جتنے بھی فوجی دوستوں سے رضوان کی ملاقات کرائی تو ان کی رائے تھی کہ ’تمہارا بیٹا بنا بنایا فوجی ہے یہ سلیکٹ ہوجائے گا۔‘
سلیکشن نہ ہونے پر والدین نے رضوان پر زور ڈالا کہ مزید تعلیم کے لیے پشاور کے کسی تعلیمی ادارے میں داخلہ لے لے۔ یہ وہ موقع تھا کہ رضوان کے پاس پس وپیش کے مواقعے ختم ہو چکے تھے۔ پشاور میں بھی داخلے ہو چکے تھے اس کے لیے اسلام آباد میں کوئی چانس نہیں تھا اس لیے ایگریکلچر یونیورسٹی پشاور کے زیر اہتمام ہونے والی بی بی اے کی ڈگری کلاسز میں اسے داخلہ دلوا دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رضوان کے والد کا کہنا ہے کہ ’میں اس داخلے کے بعد مطمئن ہوگیا کہ اب اس کی تعلیم مکمل ہوجائے گی۔‘
اے پی ایس واقعے کی ہولناکی کو انتہائی قریب سے دیکھنے والے رضوان نے بی بی اے کی کلاسز ایک مہینے اور کچھ دن ہی لی تھیں کہ دہشت گردوں نے یکم دسمبر 2017 کو ایگریکلچر یونیورسٹی کے ہاسٹل میں چھٹی کے روز تیرہ طلبہ کو شہید کر ڈالا۔ رضوان کے والد نے بتایا اس واقعے کے بعد ان کا بیٹا صرف ایک دن یونیورسٹی گیا اور واپس آ کر فیصلہ کن انداز سے بتایا کہ ’بابا میں یہاں نہیں پڑھ سکتا۔ پشاور کا کوئی تعلیمی ادارہ محفوظ نہیں۔ مجھے اسلام آباد جا کر پڑھنا ہے۔‘
رضوان نے والد کو یہ بھی بتایا کہ وہ اب صحافت کا شعبہ اپنائے گا۔ رضوان یوسفزئی اب انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد سے میڈیا کمیونیکیشن کے شعبے میں ڈگری مکمل کرنے والا ہے اور ساتھ اس نے عملی صحافت بھی شروع کر رکھی ہے۔
رضوان یوسفزئی کے والد بھی صحافی ہیں لیکن باپ کے منع کرنے کے باوجود اس نے صحافی بننے کا فیصلہ کیا۔
اپنے دو تعلیمی اداروں میں خوف کی کیفیت سے گزرنے والے اس نوجوان صحافی کا اب بھی خیال ہے کہ وہ فوج میں جا نے کا تیسرا چانس ضرور آزمائے گا۔ رضوان کا کہنا ہے کہ ’اس کا صحافتی تجربہ اسے فوجی بننے کے بعد ان دشمنوں تک پہنچنے میں مدد ملے گی جو آج بھی پاکستان کے تعلیمی اداروں کو مقتل گاہ بنانا چاہتے ہیں۔