اے پی ایس حملے کی کمیشن رپورٹ کب سامنے آئے گی؟

عدالتی کمیشن نے متعدد سول اور فوجی افسروں کو طلب کر رکھا ہے جو حملے کے وقت پشاور میں تعینات تھے

کمیشن کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اے پی ایس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کے  گلے شکوے دور کرے۔

 پشاور کے آرمی پبلک سکول (اے پی ایس) پر دسمبر 2014 کے حملے میں ہلاک ہونے والے  بچوں کے  لواحقین شروع سے ہی واقعے کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔

اس سلسلے میں انہوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ شفاف اورغیرجانبدارتحقیقات کے لیے ایک عدالتی کمیشن تشکیل دیا جائے تاکہ غفلت کے ذمہ داروں کو سزائیں اور اے پی ایس کے متاثرین کو انصاف فراہم کی جائے۔

چنانچہ اکتوبر 2018 میں سپریم کورٹ  کے سابق چیف جسٹس ثا قب نثار نے  پشاور ہائی کورٹ کو تحقیقاتی کمیشن بنانے کا حکم دیا۔

اے پی ایس کمیشن ہے کیا؟

عدالتِ عظمیٰ کے حکمنامے پرعمل درآمد کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ نے ایک رکنی کمیشن تشکیل دیا۔

سینیر جج جسٹس محمدابراہیم پر مشتمل کمیشن کو ذمہ داریاں نبھانے کے لیے ہائی کورٹ کے انسانی حقوق  کے ڈائریکٹریٹ کے سربراہ اور ضلعی جج  انعام اللہ وزیر، ایڈیشنل سیشن جج چارسدہ اجمل طاہر اور سول جج چارسدہ عمران اللہ  کی معاونت بھی دی گئی۔

کمیشن کو ذمہ داری سونپی گئی کہ وہ اے پی ایس میں ہلاک ہونے والے بچوں کے لواحقین کے  گلے شکوے دور کرے اور اس واقعے کی تحقیقات کرے۔

کِن لوگوں کو کمیشن کے سامنے حاضر ہونا ہے؟

تین ماہ سے زائد عرصے کے دوران کمیشن نے واقعے کے 93 گواہوں کو طلب کرکے ان کے بیانات قلمبند کیے۔

متعلقہ  سول اور فوجی اداروں کے کئی اعلیٰ افسران سے بھی تحقیقات کی جا رہی ہیں جو حملے کے دنوں میں پشاور میں سکیورٹی اور انتظامی فرائض سرانجام دے رہے تھے۔

جنوری 2019 کے آخری ہفتے میں کمیشن نے اے پی ایس کے پیٹرن اِن چیف اور سابق کور کمانڈر پشار ہدایت الرحمان، سکول کے اس وقت کے بورڈ آف گورنر کے سربراہ مدثر اعظم، بریگیڈئر عنایت اللہ، آرمی میڈیکل کور  کے میجر ڈاکٹر عاصم شہزاد اور اے پی ایس بورڈ آف گورنر کے اس وقت کے سیکرٹری عمران کو نوٹس جاری کر کے ان کو بیانات ریکارڈ کرنے کےلیے طلب کیا۔

اس کے علاوہ  صوبائی پولیس کے سابق سراہ ناصر خان درانی سمیت انسدادِ دہشتگردی کے اس وقت کے سربراہ محمد عالم شنواری اور اس وقت کے سیکرٹری اختر علی شاہ کو بیانات ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کیا گیا ہے۔

فوجی افسروں میں بریگیڈئرعنایت اللہ کمیشن کے سامنے پیش ہو کر اپنا بیان قلمبند کرا چکے ہیں جو حملے کے وقت پشاور کی 11 کور کے کمانڈر تھے۔

کمیشن کے ترجمان کے مطابق مقامی پولیس کے افسران پہلے سے اپنی بیانات ریکارڈ کرا چکے ہیں۔

تحقیقات کب تک مکمل ہو سکتی ہیں؟

گزشتہ سال اکتوبر میں جب سپریم کورٹ نے کمیشن بنانے کا حکم دیا تھا تو اسے چھ ہفتوں میں تحقیقاتی رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی تھی۔ اس ڈیڈلائن کو کئی مرتبہ مؤخر کیا جا چکا ہے اوراس کا کام عنقریب مکمل ہونے کے آثار دکھائی نہیں دے رہے۔

پشاور میں انگریزی روزنامہ ڈان سے وابستہ صحافی  وسیم احمد شاہ ،جو گزشتہ 15 سالوں سے کورٹ رپورٹنگ کر رہے  ہیں، نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اے پی ایس کے متاثرین کے مطالبات تاحال پورے نہ ہونے کی ذمہ داری حکومت پر عائد کی۔

"حکومت کو اس واقعے کے فورا بعد  ہی عدالتی کمیشن بنانا چاہیے تھا تاکہ سیکورٹی کی ناکامی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا لیکن حکومت نے تعطل سے کام لیا۔ اب سپریم کورٹ نے یہ بیڑا اٹھایا کہ کئی سالوں بعد کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔"

وسیم احمد شاہ کے مطابق کمیشن اپنی کارروائی مکمل کر کے سپریم کورٹ میں رپورٹ پیش کرے گا جس کے بعد ہی سپریم کورٹ فیصلہ دے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان