کیا ٹرافی ہنٹنگ پروگرام نایاب جانوروں کی زندگی کا محافظ ہے؟

شمالی علاقہ جات میں نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے ٹرافی ہنٹنگ کا پروگرام شروع کیا گیا مگر یہ بھی تنازعات میں الجھ کر رہ گیا۔

آئی بیکس کے شکار کا لائسنس غیر ملکی اور پاکستانی شکاریوں کے لیے مارخور کی نسبت سستا ہے

(Hesham Usama Khan)

یہ ایک ایسی سحر انگیز ساعت تھی جب شکاری کو اپنی آنکھیں موندنا پڑیں۔ اپنے ذہن کو پرسکون کرنے کے لیے اس نے آنکھوں کو روز سے مِیچ لیا۔

ہڈیوں کا گودا جما دینے والی سردی میں اس کے کپڑے بھیگ رہے تھے اور وہ ایک چھوٹے سے کنارے پر لیٹا اپنی بائیں ٹانگ کی کپکپاہٹ کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا۔

اس نے اپنا ایک پاؤں زمین پر جمایا اور اپنے گائیڈ کے اشارے کا منتظر تھا کہ وہ شکار کو دیکھ سکے۔ گائیڈ کی ایک نرم تھپکی نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ اس کے نشانے پر وہ ٹرافی تھی۔ ایک شاندار مارخور، جس کے شکار کے لیے وہ دور دراز سے یہاں تک مسافت طے کرکے آیا تھا۔ بوڑھا بادشاہ، سرما کی دھوپ میں ایک چٹان پر بیٹھا آرام کررہا تھا۔ شاید اُسی کے آنے کا منتظر تھا۔

گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلے، وادی ہنزہ نگر اور پاکستان کے شمالی اور وسطی پہاڑی علاقوں میں پائے جانے والے یہ جنگلی بکرے بہت حساس ہوتےہیں۔ یہ دور سے ہی آہٹ سن لیتے ہیں اور انسان کی نگاہ پڑتے ہی چونک جاتے ہیں۔ مارخور اس قدر پھرتیلا جانور ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ہوا ہوجاتا ہے۔

ان علاقوں میں سال کے چھ مہینے شکار کرنا ممنوع ہے، مارخور ان چھ مہینوں میں بغیر خوف و خطر گھومتا ہے، کوئی اس کی طرف میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔ نومبر کے اوائل سے لے کر اپریل کے اختتام تک ٹرافی ہنٹنگ سیزن اپنے عروج پر رہتا ہے۔

بھاری معاوضے کے عوض گنتی کے چند لائسنس ہی جاری کیے جاتے ہیں تاکہ گلگت بلتسان کے بلند قامت ناہموار پہاڑوں میں اس شاندار جانور کے ساتھ ساتھ بلیو شیپس اور ہمالین آئیبکس کا شکار کیا جاسکے۔ امسال ہر برس کی طرح، گلگت بلتستان کے پہاڑی سلسلے کے لیے غیر ملکی شکاریوں کو 75ہزار ڈالرز فی لائسنس کے حساب سے مارخور کے شکار کے لیے صرف چار لائسنس دیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

شکار کے ہر موسم کے آغاز پر دنیا بھر سے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام پر تنقید بھی سامنے آتی ہے۔ مختلف تنظیمیں اس کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتی ہیں اور جانوروں کے حقوق پر بات کرنے والی کئی عالمی تنظیموں نے بھی جانوروں پر ہونے والے ان مظالم کی مذمت کی ہے۔ یہ تنظیمیں ایسے پروگراموں پر اپنے تحفظات کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کے شہری علاقوں میں رہنے والے افراد ان پروگراموں کو آڑے ہاتھوں لینے کا کوئی موقع جانے نہیں دیتے۔

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ پروگرام ہمیشہ ابہام اور تنازعات کا شکار رہا ہے۔ معاشی پہلوؤں کا جائزہ لیں تو وہ کمیونٹیز جو اس سارے پروگرام میں معاونت کا کردار ادا کرتی ہیں اور ان کے لوگ شکاریوں کو سہولیات بہم پہنچاتے ہیں، ان کو رقم کی بروقت ادائیگیوں کا مسئلہ درپیش رہتا ہے۔

ان گروہوں کو حکومتی عہدے داروں سے بھی شکایات ہیں کہ وہ معاشرتی بنیادوں پر دوسرے گروہوں کی حمایت کرتے ہیں۔ مناسب آڈٹ کی عدم موجودگی کے باعث ہر کمیونٹی کو شکار سے ملنے والے 80 فیصد حصے پر بھی سوال اٹھتے رہتےہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ شکاری اور سہولت کار دونوں جنگلی حیات کے تحفظ کی بجائے زیادہ سے زیادہ شکار کرنا چاہتے ہیں۔

پاکستان میں ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی تاریخ

1990 کی دہائی کے اوائل میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے قائم تنظیموں اور گلگت بلتستان کی حکومت نے ایک ایسی حکمت عملی مرتب کرنے کا فیصلہ کیا جس سے ملک بھر میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم افراد کو ایک فکر انگیز سوال پر آگے بڑھنے میں مدد ملے کہ کس طرح عام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیے بنا جنگلی حیات کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔

اُس وقت پاکستان فارسٹ انسٹی ٹیوٹ پشاور کے عاشق احمد خان سے، جو جنگلی حیات کے ماہر کی حیثیت سے کام کر رہے تھے، رابطہ کیا گیا اور وہ کام کرنے کے لیے آمادہ ہو گئے۔

خان اس سلسلے میں ابتدائی سروے رپورٹ کے لیے گلگت بلتستان کے ضلع بھر روانہ ہو گئے۔ ابتدائی کھوج سے معلوم ہوا کہ وادی میں سخت جاڑے کے موسم میں مقامی لوگ آئی بیکس کا شکار کرتے ہیں اور ٹھنڈے موسم میں خوراک کے طور پر اس کا گوشت کھاتے ہیں۔ مقامی لوگوں کے غیر قانونی شکار کرنے کی وجہ سے آئی بیکس کی تعداد بتدریج کمی کا شکار ہو رہی تھی۔ یہ رپورٹ چہرے پر ٹھنڈے پانی کا چھینٹا ثابت ہوئی اور حکام نے طویل نیند سے جاگ کر اس کی روشنی میں آئندہ کی حکمت عملی طے مرتب کرنا شروع کر دی۔

عاشق احمد نے گلگت بلتستان کی انتظامیہ کے ساتھ مل کر پہلی بار کمیونٹی کی بنیاد پر ٹرافی ہنٹنگ پروگرام بھرویلی میں شروع کیا۔ پروگرام کے آغاز میں اس علاقے میں موجود جانوروں کی آبادی کا تخمینہ لگانے کے لیے سال میں دو بار بیس لائن سروے کرنے کا ایک سخت میکانزم متعارف کرایا گیا تاکہ جانوروں کی صحیح تعداد کا حساب رکھا جاسکے۔

غلطی کہاں ہوئی؟

اگرچہ کمیونٹی کی بنیاد پر ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی ابتدا خالصتاً جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے تھی اور اس کا مقصد جنگلی جانوروں کے غیر قانونی شکار کی روک تھام کرنا تھا تاکہ جنگلی حیات کی گھٹتی تعداد پر قابو پایا جائے اور انہیں تحفظ فراہم کیا جائے لیکن جلد ہی اس پروگرام نے بزنس ماڈل کی شکل اختیار کر لی۔ شکار کی اجازت کے پرمٹ دیے جانے لگے، جس کی وجہ سے اس پروگرام میں بہت سارا پیسہ آنا شروع ہو گیا۔

پیسے کی ریل پیل کی وجہ سے ابتدا میں جو معیار رکھا گیا تھا وہ برقرار نہ رہا۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ سرکاری عہدے داروں، این جی اوز، تنظیموں کے کارکنوں اور کمیونٹی کے کچھ ارکان کے درمیان ایک اجنبی گٹھ جوڑ بن گیا۔ جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیمیں بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ معیارات پر عمل پیرا ہوئے بغیر ناقص ماحولیاتی سروے اور جانوروں کی تعداد کا تخمینہ لگانے میں پیش پیش تھیں، جنھیں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کے آغاز میں انتہائی اہمیت کا حامل قرار دیا گیا تھا۔

اسی طرح سرکاری عہدے داروں اور تنظیموں کے کارکنوں کے مابین گٹھ جوڑ کے نتیجے میں شکاریوں نے اپنے شکار کو متعین علاقوں کی بجائے دوسرے علاقوں میں جا کر شکار کرنا شروع کر دیا، جو دیے گئے اجازت نامے کی واضح خلاف ورزی تھی۔

شکار کرنے کی اجازت صرف مخصوص علاقے تک ہی دی جاتی ہے۔ سرکاری حکام کی طرف سے لاپروائی برتنے کی وجہ سے شکاری اپنی پسند کی جگہوں پر شکار کرنے لگے، جس کے نتیجے میں صرف چند کمیونٹی کنٹرولڈ ہنٹنگ ایریاز (سی سی ایچ اے) میں ہمالیہ آئی بیکس کے شکار کے لیے سازگار ماحول ملا۔

اس حرکت کی بے رحمی کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے کہ آخری ہنٹنگ سیزن میں حکومت کے منظور شدہ 42 سی سی ایچ اے میں سے صرف 12 سی سی ایچ اے کی میزبانی میں ٹرافی ہنٹنگ سکیم کو مکمل کیا گیا۔

آزاد جنگلی حیات کے محافظوں کے ذریعے کی گئی ریسرچ کے مطابق، اپر ہنزہ اور سوست کے مابین پائے جانے والے سی سی ایچ اے کے آسان خطے میں ہمالین آئی بیکس کا زیادہ شکار کیا گیا۔ یہ علاقے ہمالین آئی بیکس کے شکار کے لیے آسان ہدف سمجھے جاتے ہیں۔

ہر سال تواتر سے شکار کی وجہ سے ہمالین آئی بیکس کی نشوونما شدید متاثر ہوئی ہے، وہاں پائے جانے والے ہمالین آئی بیکس دیگر علاقوں میں پائے جانے ہمالین آئی بیکس کی نسبت چھوٹے رہ گئے ہیں۔

اسی طرح، گلگت بلتسان کے وائلڈ لائف گارڈز نے مجرمانہ ہتھکنڈے استعمال کرنے شروع کر دیے۔ وہ ان علاقوں کے مقامی شکاریوں اور پاکستان بھر سے آنے والوں شکاریوں کے ساتھ مل کر کم عمر نَر آئی بیکس کا شکار کرنے میں معاونت فراہم کرتے رہے۔ آئی بیکس کے شکار کی اجازت صرف اسی صورت ہوتی ہے جب اس کے سینگ38 انچ تک ہوں، بصورت دیگر اس سے کم عمر آئی بیکس کے شکار پر پابندی ہے، مگر گلگت وائلڈ لائف کے گارڈز نے ان مروجہ اصولوں سے انحراف کیا اور تھوڑے سے لالچ کے عوض اس ٹرافی کے لیے غلط سائز کو تجویز کیا۔

ماضی میں چھوٹی عمر کے جانوروں کا شکار بھی کروایا گیا۔ اسی طرح، سی سی ایچ اے کے کمیونٹی رکن جو شکار کی میزبانی نہ کر سکے تھے، انہوں نے اپنے علاقوں میں غیر قانونی شکار کرنے کا سہارا لیا۔ وادی بار میں غیر قانونی شکار کے بارے میں اطلاعات تسلسل سے آتی رہتی ہیں۔ یاد رہے یہ وہی مقام ہےجہاں سے کمیونٹی بیسڈ ٹرافی ہنٹنگ سکیم کا آغاز ہوا تھا۔ اس وضاحت کا مقصد یہ ہے کہ ماضی میں کس طرح یہ پروگرام چلایا جاتا رہا ہے۔

اس سال کیا مختلف ہے؟

کئی برسوں سے جنگلی حیات کے تحفظ کار اور محقق آئی یو سی این پاکستان (ماحولیاتی تحفظ کی عالمی تنظیم) کے مینیجر ڈاکٹر سعید عباس ٹرافی ہنٹنگ پروگرام میں ہونے والے تمام غیر قانونی اقدامات کو ٹھیک کرنے اور اس پروگرام کو اپنی اصل حالت میں بحال کرنے کے لیے حکومت اور بین الاقوامی جنگلی حیات کے تحفظ کی تنظیموں پر تواتر سے زور دیتے رہے ہیں تاکہ جنگلی حیات کے قدرتی مسکن اور ان کی نسل کے تحفظ کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جا سکیں۔

رواں سال ڈاکٹر سعید نے آئی یو سی این کے ایک منصوبے ’گلوبل اسیسمنٹ آف سٹیٹ آف نیچر اینڈ بائیوڈائیورسٹی سیف گارڈنگ ایکشنز اِن نارتھ ایریاز آف پاکستان‘ کے تحت پارکوں اور وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ گلگت بلتستان، کے تعاون سے ہنٹنگ سیزن کے لیے شکاریوں کے لیے رہنما اصولوں کا مسودہ مرتب کیا۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ڈاکٹر سعید کا کہنا تھا ’ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے حوالے سے حفاظتی تدابیر کی ضرورت اور اہمیت کو معاشرے کے تمام متعلقہ لوگوں نے بہت پذیرائی بخشی ہے۔ ہم نے گائیڈ لائن کے مسودے میں کئی رہنما اصول شامل کیے ہیں جس سے آئندہ شکاری رہنمائی لیں سکیں گے اور مسودے سے تمام غیر ضروری چیزیں نکال کرابہام کو دور کر دیا ہے، جس کی وجہ سے ماضی میں یہ پروگرام متاثر ہو رہا تھا اور لوگوں کے ذہنوں میں غلط فہمیاں پیدا ہو رہی تھیں۔‘

’گلگت بلتستان کے وائلڈ لائف مینجمنٹ بورڈ نے تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت سے تشکیل دیے جانے کے بعد نئی گائیڈلائن کی منظوری دے دی ہے۔‘

نئے رہنما اصولوں کی روشنی میں محکمہ جنگلات وائلڈ لائف اینڈ ماحولیات (ایف ڈبلیو ای ڈی) گلگت بلتستان نے نومبر کے اوائل میں ہنٹگ سیزن کے آغاز سے قبل دو انتہائی مشکل مسائل کو کامیابی کے ساتھ حل کیا۔ مارخور، آئی بیکس اور بلیو شیپس کی مجموعی تعداد کا پتہ لگانے کے لیے امسال (مارچ 2019 سے لے کر مئی 2019 تک) سائنسی بنیادوں پر جانور شماری کی گئی تھی اور پھر اس کے نتیجے میں ہی گلگت بلتستان کے 40 سے زائد سی سی ایچ اے کو کوٹہ تفویض کیا گیا۔

 گلگت بلتستان کے سیکرٹری جنگلات، وائلڈ لائف اینڈ ماحولیات، شاہد زمان کا کہنا تھا ’چونکہ ہم اس بار ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کو بہترین بین الاقوامی معیار کے برابر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، لہٰذا ہم نے ایک پائیدار فارمولے کے تحت ہر سی سی ایچ اے کے لیے شکار کا کوٹہ مختص کیا ہے۔‘

شاہد زمان نے جس پائیدار فارمولے کا ذکر کیا اس پر تمام جنگلی حیات کی تحفظ کی تنظیموں نے اتفاق کیا ہے اور وہ ٹرافی ہنٹنگ کے لیے بین الاقوامی معیار کے مطابق ہیں۔ فارمولے کے مطابق ٹرافی ہنٹنگ لائسنس صرف اس علاقے میں ہی شکار کے لیے کارآمد ہو گا جہاں جانوروں کی گنتی کے بعد مندرجہ ذیل تینوں ضروریات پوری ہوتی ہوں:

1: نر اور مادہ کا تناسب کم از کم چھ ایک (6:1) ہونا چاہیے، یعنی چھ مادہ، ایک نر۔

2: علاقے میں کم از کم 25 فیصد تک (ایک نوع کے جانور) ٹرافی ہنٹنگ سائز والے جانور موجود ہوں۔

3: جانوروں کی کل آبادی کے دو فیصد سے زائد کا شکار کرنے کی اجازت نہ ہو۔

 شاہد زمان نے سروے کی شفافیت پر تبصرہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سروے کے لیے ایف ڈبلیو ای ڈی، مقامی کمیونٹیز، وفاقی حکومت کے نمائندے، اکیڈیمک اور بین الاقوامی ماہرین پر مشتمل ملٹی پولر ٹیمیں تیار کی گئیں۔ مزید برآں ’ایک مکمل سروے سے ہم نے یقینی بنایا کہ ہنٹنگ پروگرام گلگت بلتستان کے خطے میں یکساں طور پر تقسیم ہو لہٰذا چند سی سی اے کی حمایت کا تصور اب ختم ہوگیا ہے۔‘

دوسرا یہ کہ نئے رہنما اصول و قوانین کے تحت تمام سی سی ایچ اے سے کہا گیا کہ وہ ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کے ذریعے یا مختلف بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیموں سے حاصل کردہ فنڈز کا صحیح آڈٹ پیش کریں۔

بعد ازاں محکمہ جنگلات وائلڈ لائف اینڈ انوائرنمنٹ ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے کلیئرنس دینے سے قبل سی سی ایچ اے کے تمام آڈٹ کو متعلقہ ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسرز (ڈی ایف او) کی طرف سے بھی چانچ پڑتال کی گئی۔ مزید برآں، تمام سی سی ایچ اے کو بھی درخواست کی گئی کہ وہ اس سال کے لیے مختض کوٹے کے حصول کے لیے اپنا لازمی کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ پلان جمع کروائیں۔

زمان نے مزید کہا ’کچھ لوگوں کو لگتا ہے کہ ہم غیر ضروری سختی کا مظاہرہ کر رہے ہیں جبکہ ہم اس پورے پروگرام کو اس انداز میں منظم کررہے ہیں کہ اس کو باقاعدہ منظم بنایا جائے۔‘

اس سال شکاریوں، تنظیموں، کمیونٹی ممبروں اور سرکاری اہلکاروں کے مابین بدعنوانی کی خاطر بنے گٹھ جوڑ کے خاتمے کے لیے محکمے نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نئے رہنما اصولوں کے مطابق بدعنوانی کے انسداد کے لیے محکمے میں ہر سطح پر یکسوئی پائی جاتی ہے۔

گلگت بلتستان کے کنزرویٹر جنگلات و پارک محمود غزنوی کے مطابق ماضی میں جن غلطیوں کی نشان دہی کی گئی تھی ان کے متعلق موجودہ نظام میں نقائص کو دور کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر محکمے میں تبدیلیاں کی گئی ہیں۔

’کوئی شکاری، افسر یا سرکاری عہدے دار اس مرتبہ اپنے اجازت نامے کو من پسند سی سی ایچ اے میں منتقل نہیں کر سکے گا۔ ہم ہر سی سی ایچ اے کو مخصوص کوٹہ مختص کرنے کے سخت ترین مراحل سے گزر چکے ہیں اور ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ اس سیزن میں کوئی گڑبڑ نہ ہو۔‘

’ہمارے نئے رہنما اصولوں کے مطابق اگر کوئی کمیونٹی مقررہ معیار کے سینگوں کے سائز سے کم ٹرافی جانوروں کے شکار میں معاونت کرتی ہے تو اسے شکار کے ذریعے حاصل ہونے والی آمدنی کا 50 فیصد جرمانے کے طور پر ادا کرنا ہو گا۔ ماضی میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ وائلڈ لائف گارڈز نے ٹرافی سائز کی غلط معلومات فراہم کیںں لیکن اس بار تمام ٹرافیوں کی پیمائش علاقے کے معزز ڈی ایف او کے ذریعے کی جائیں گی۔‘

غزنوی کا مزید کہنا تھا کنزرویٹر اس سیزن میں شکار کی جانے والی کل ٹرافیوں میں سے 25 فیصد کی جانچ پڑتال خود کریں گے کہ آیا اس امر کو یقینی بنایا گیا کہ شکاریوں نے نئے نافذ کردہ رہنما اصولوں و قوانین کو مدنظر رکھا۔

اس ہنٹنگ سیزن کے سلسلے میں گلگت بلتستان کی حکومت نے تمام اہم اقدامات کیے ہیں۔ گلگت بلتستان نے اس کام میں پہل کرتے ہوئے ٹرافی ہنٹنگ پروگرام کی حمایت کرنے والے پاکستان کے دیگر خطوں کے لیے ایک مثال قائم کر دی۔ گلگت بلتستان میں ٹرافی ہنٹنگ پروگرام متعارف ہونے سے پہلے کون جانتا تھا کہ ایک دن شکاری اپنے مخصوص لباس میں ان بنجر پہاڑوں پر جنگلی جانوروں کی تلاش کے لیے اتریں گے۔

شکاری نایاب اور عجیب و غریب نوع کے جانوروں کا شکار کرنے کے لیے بھاری رقوم ادا کرنے پر راضی ہو جاتے ہیں تاکہ ان نایاب جانوروں کا سَر حاصل کر سکیں اور اسے اپنے ڈرائنگ روم کی آرائش کے لیے آراستہ کر سکیں یا جب تک وہ حیات رہیں، ان دلچسپ کہانیوں کو اپنے دوستوں کو سنا کر فخر محسوس کرتے رہیں۔

ہم بحیثیت فرد نایاب جانوروں کے شکار سے متفق ہوں یا نہ ہوں مگر پاکستان کے قراقرم، ہمالیہ اور ہندوکش پہاڑی سلسلے آنے والے برسوں تک ٹرافی کے شکاریوں کی میزبانی کرتے رہیں گے اور ایک مناسب منصوبہ بندی کے تحت پہاڑی علاقوں میں رہنے والے غریب لوگ پہلے کے مقابلے میں اس پروگرام سے زیادہ مستفید ہو سکیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ماحولیات