میں بےنظیر بھٹو کے قتل میں ملوث نہیں: اکرام محسود

کسی نامعلوم مقام سے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ کے ذریعے بھیجے گئے ایک آڈیو پیغام میں اکرام محسود نے کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان ’شخصی معاملات‘ کو چھپانے کے لیے یہ الزام عائد کیا گیا۔

  اکرام محسود بےنظیر کی ہلاکت کے بعد سے روپوش ہیں اور خیال ہے کہ افغانستان میں کہیں مقیم ہیں(بشکریہ گوہر محسود)

پیپلز پارٹی کی قائد بےنظیر بھٹو کے قتل کے مبینہ مرکزی کردار اور تحریک طالبان پاکستان کے رکن اکرام اللہ محسود نے خود پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے اور کہا ہے کہ وہ بے نظیر کے قتل میں شریک نہیں تھے اور ان پر جھوٹا الزام عائد کیا گیا ہے۔

صحافی گوہر محسود اور حیات اللہ محسود کو کسی نامعلوم مقام سے سماجی رابطے کی ایک ویب سائٹ کے ذریعے بھیجے گئے ایک آڈیو پیغام میں اکرام محسود نے کہا ہے کہ سندھ اور پنجاب کے درمیان ’شخصی معاملات‘ کو چھپانے کے لیے یہ الزام عائد کیا گیا۔ ان کا کہنا تھا: ’سندھ اور پنجاب پہلے بھی ایک دوسرے کے خلاف ایسے اقدامات کرتے رہے ہیں۔ بےنظیر کا قتل کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ اس حوالے سے تمام تر ثبوت بھی موجود ہوں گے۔‘

دو مرتبہ وزیر اعظم بننے والی بےنظیر بھٹو کے قتل کے ملزم کا کہنا تھا: ’میں اس بات کو ایک بار پھر دہراتا ہوں کہ سندھ اور پنجاب کی پہلے سے آپس میں دشمنی ہے۔ یہ سب ان کی لڑائی کا نتیجہ ہے۔ میرے حوالےسے ایک بات مشہور کرائی گئی ہے کہ بےنظیر کو اکرام محسود نے قتل کیا ہے۔ یہ پروپیگینڈا ہے۔ اس حوالے سے میں نے پہلے بھی ایک ویڈیو پیغام جاری کیا تھا۔ میں اب بھی یہ کہتا ہوں کہ بےنظیر کے غم میں شریک ہیں۔‘

بےنظیر بھٹو پر 27 دسمبر 2007 میں راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ایک جلسہ عام کے اختتام پر حملہ کیا گیا تھا جس میں وہ ہلاک ہوئیں۔ ان کے قتل کے حوالے سے قائم کی گئی تحقیقاتی ٹیمیں بھی تاحال کوئی خاطر خواہ رپوٹس جاری نہیں کر سکی ہیں۔ تاہم ایف آئی اے کے تحقیقات کاروں کے خیال میں اکرام اللہ دوسرا بمبار تھا جس نے لیاقت باغ کے گیٹ کے قریب خود کو اڑایا تھا۔

لیکن پنجاب حکومت کی جانب سے میڈیا کو جاری کی گئی انتہائی مطلوب افراد کی ایک فہرست میں اکرام اللہ محسود کا نام اب بھی موجود ہے۔ حکومتِ پنجاب نے اکرام اللہ محسود کی گرفتاری یا ہلاکت کی صورت میں 20 لاکھ روپے کا انعام بھی رکھا ہوا ہے۔ وہ بےنظیر کی ہلاکت کے بعد سے روپوش ہیں اور خیال ہے کہ افغانستان میں کہیں مقیم ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)


اپنی والدہ کے قتل کے ٹھیک 12 سال بعد لیاقت باغ میں ہی ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے ان کے بیٹے اور سیاسی جانشین بلاول بھٹو نے جمعے کو اپنے خطاب میں کہا کہ ان کی والدہ کو صرف اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ وہ طاقت کا سرچشمہ صرف عوام کو مانتی تھیں اور وہ کسی آمر کے سامنے سر جھکانے کو تیار نہیں تھیں۔

2007 میں بےنظیر بھٹو کو قتل کرنے کے بعد اس وقت کے فوجی آمر پرویز مشرف کی حکومت نے الزام لگایا تھا کہ یہ کارروائی تحریک طالبان پاکستان کی ہے۔ اس حوالے سے تحریک طالبان کے بانی اور امیر بیت اللہ محسود کی کسی شخص کے ساتھ ٹیلی فون ٹیپ بھی جاری کی گئی تھی۔

بیان جاری کرنے والے اکرام محسود کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین سے ہے اور تحریک طالبان کے ابتدائی متحرک کارکنان میں ان کا شمار ہوتا رہا ہے۔ تحریک طالبان میں دراڑیں پڑنے کے بعد اکرام محسود نے شہریار محسود کے گروپ سے تعلق جوڑ لیا تھا۔ شہریار محسود اور اکرام محسود دونوں بیت اللہ کے قریبی اور زندہ بچ جانے والے چند درینہ ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں۔

آپریشن ضرب عضب کے بعد قبائلی اضلاع میں طالبان کی سرگرمیاں کافی محدود ہوگئی تھیں تاہم حالیہ دنوں میں ایک بار پھر طالبان کی سرگرمیوں میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق بےنظیر بھٹو کے قتل کی تحقیقات پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا چکے ہیں تاہم ریاستی ادارے اور کئی حکومتیں اس بات پر متفق نہیں ہوسکیں کہ بےنظیر کو قتل کس نے کیا اور نہ ہی آج تک کوئی حتمی نتیجہ نکالا جاسکا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان