پابندی کے باوجود ایرانی ڈیزل کراچی اور ملتان تک کیسے پہنچتا ہے؟

پندرہ برس سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے کاروبار سے وابستہ نجیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہم زیادہ تر ملتان تک ایرانی ڈیزل براستہ سندھ سپلائی کرتے ہیں کیوں کہ پیٹرول میں آگ لگنے کا اندیشہ رہتاہے جب کہ ڈیزل کی سپلائی محفوظ ہے۔

رود بند سے لایا جانیوالا پیٹرول اور ڈیزل گوادر، مند، پسنی اور پھر تربت تک سپلائی کیا جاتا ہے۔ پنجگور سے تیل لسبیلہ، حب میں سپلائی کیا جاتاہے جہاں سے اسے کراچی منتقل کر دیا جاتا ہے۔(ٹوئٹر)

غیر قانونی ہونے کے باوجود پاکستان میں ایرانی ڈیزل اور پیٹرول  کے کاروبار سے  ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔ یہ تیل بلوچستان سے ملک بھر میں سپلائی ہوتا ہے۔   

پندرہ برس سے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کے اس کاروبار سے وابستہ نجیب اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ایرانی تیل کو ملک بھر میں پہنچانے کے لیے مختلف راستے ہیں۔ 

ان روٹس میں مکران کا ضلع پنجگور، ضلع کیچ کے علاقے پروم، تمپ، دستک،  گوادر کا علاقہ رود بند، ضلع چاغی میں ماشکیل، جودر وغیرہ  شامل ہیں۔

نجیب اللہ کے مطابق ’جودر‘ ایرانی سرحد کا علاقہ ہے جہاں سے تیل زامیاد  گاڑیوں (چھوٹا نیلا مال بردار ایرانی ٹرک)، موٹر سائیکلوں اور دوسرے ذرائع سے ماشکیل لایا جاتا ہے۔ وہاں سے چھوٹی بڑی گاڑیوں میں دالبندین، نوشکی اور پھر مستونگ تک سپلائی ہوتا ہے۔

نجیب اللہ کے بقول ایرانی ڈیزل سپلائی کرنے کے لیے جو ٹرک استعمال کیا جاتا ہے اس میں  ایک بڑی ٹینکی نصب کی جاتی ہے اور اس کا پیچھے کا دروازہ بھی بند ہوتا ہے۔

نجیب اللہ کے مطابق، ایک ٹرک کی ٹینکی میں ایک ہزا رسے  پندرہ سو لیٹر ڈیزل لوڈ کیاجاتا ہے جب کہ ایرانی سرحد سے تیل لانے والی گاڑیاں جنہیں زامیاد کہا جاتا ہے وہ ہر گاڑی چار ہزار لیٹر پیٹرول اور ڈیزل لوڈ کرتی ہے۔

نجیب اللہ نے بتایا کہ رود بند کا علاقہ سمندری علاقہ ہے وہاں سے کشتیوں کے ذریعے ایرانی پیٹرول اور ڈیزل سپلائی کیا جاتا ہے۔

رود بند سے لایا جانیوالا پیٹرول اور ڈیزل گوادر، مند، پسنی اور پھر تربت تک سپلائی کیا جاتا ہے۔ پنجگور سے تیل لسبیلہ، حب میں سپلائی کیا جاتاہے جہاں سے اسے کراچی منتقل کر دیا جاتا ہے۔

ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کا مین بازار مستونگ میں لک پاس کے قریب قائم ہے جہاں سے یہ پھر صوبے کے دیگر علاقوں اور سندھ پنجاب تک بھی سپلائی ہوتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مکران بیلٹ سے بھی ایرانی پیٹرول اور ڈیزل تمپ اور دوسرے راستوں سے لاکر تربت میں جمع کیا جاتا ہے اور وہاں سے ہوشاب، سوراب، قلات، منگیچر کے راستے مستونگ لایا جاتا ہے۔  

مستونگ کے مین بازار سے یہ ڈیزل  بولان کے راستے، ڈھاڈر، سبی، ڈیرہ اللہ یار اور اس کے بعد پھر دوسرے پوائنٹ جیکب آباد میں جمع کرنے کے بعد کشمور، کندھ کوٹ، فاضل پور، راجن پور، ڈیرہ غازی خان اور ملتان تک پہنچایا جاتا ہے۔

نجیب اللہ کے مطابق ’ہم زیادہ تر ملتان تک ایرانی ڈیزل براستہ سندھ  سپلائی کرتے ہیں کیوں کہ پیٹرول میں آگ لگنے کا اندیشہ رہتاہے جب کہ ڈیزل کی سپلائی محفوظ ہے۔  

کوئٹہ سے ایک دوسرا روٹ کچلاک، بوستان کے راستے ژوب، مغل کوٹ، درابن کے راستے ڈیرہ اسماعیل تک جاتا ہے جہاں سے یہ ڈیزل پنجاب کے دیگر شہروں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔

نجیب اللہ کے مطابق ایرانی پیٹرول اورڈیزل  کے ریٹ میں چند روپوں کا فرق ہے۔ جب یہ ایران سے روانہ ہوتا ہے تو ہر پوائنٹ تک پہنچنے میں ایک لیٹرکے پیچھے لاگت میں ایک روپے یا اس سے زیادہ کا اضافہ ہوتا ہے۔

نجیب اللہ کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے سرحدی علاقوں جیسے ماشکیل وغیرہ میں ایرانی تیل کے علاوہ دوسرا کوئی روزگار کا ذریعہ نہیں ہے، یہ علاقہ ایرانی سرحد سے صرف پندرہ  کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔  ’جب ایرانی ڈیزل اور پیٹرول پر پابندی نہیں تھی تو مستونگ سے ہم ملتان تک باآسانی سفر کرتے تھے۔‘ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ بلوچستان میں ایرانی ڈیزل اور  پیٹرول کے کاروبار سے ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے۔

اس کاروبار میں شریک ایک اور ڈرائیور نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب ماشکیل سے دوبارہ ایرانی پیٹرول اور ڈیزل کی ترسیل کا کام ایک ماہ قبل شروع ہوا ہے تاہم یہ مکمل طور پر شروع نہیں ہوا۔

ڈرائیور نے بتایاکہ وہ ایران میں وہاں کی کرنسی تمن کے عوض تیل خریدتے ہیں جس کے نرخ میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔

یاد رہے کہ ایران میں کرنسی کا پیمانہ ریال ہونے کے باوجود روزمرہ خریداری میں تمن کی پرانی اصطلاح استعمال ہوتی جس کے مطابق 10 ایرانی ریال ایک تمن کے برابر ہوتے ہیں۔

ڈرائیور کے مطابق اس وقت ماشکیل میں 70 لٹر ایرانی پیٹرول کا ایک ڈرم پانچ ہزار روپے (فی لٹر 71 روپے 42 پیسے) میں فروخت ہورہا ہے اور کبھی  کبھار یہ اس سے بڑھ بھی جاتا ہے۔

ڈرائیور کے مطابق ماشکیل سے ایرانی سرحدی علاقے جودرکا فاصلہ کئی گھنٹوں میں  طے ہوتا ہے جو پہاڑوں کے بیچ سے ہوکر گزرتا ہے۔ یہ انتہائی  مشکل سفر ہے کیوں کہ یہاں باقاعدہ کوئی سڑک موجود نہیں ہے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر کبھی جودر کا روٹ بن ہوجائے تو ضلع چاغی کے دوسرے سرحدی علاقے راجے، نوکنڈی سے تیل کی سپلائی کی جاتی ہے۔

ضلع چاغی میں ایرانی تیل کے کاروبار کے ایک ڈیلر نے بتایا کہ پورے ضلعے میں تقریباً 20 ہزار افراد کا روزگار ایرانی تیل کے کاروبار سےوابستہ ہے۔

نجیب اللہ کے مطابق جب ایرانی تیل بغیر رکاوٹ کے سپلائی ہورہا تھا تو لکپاس پر آپ کو رکشوں، موٹر سائیکلوں  اور دیگر گاڑیوں میں تیل کی سپلائی کرتے لوگ نظر آتے تھے جو اب دکھائی نہیں دیتے ہیں۔

واضح رہے کہ کمشنر مکران ڈویژن طارق زہری کی گاڑی ایرانی تیل لانے والے گاڑی سے ٹکرانے کے بعد اس میں آگ لگ گئی تھی جس کے دوران وہ جھلس کر ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ایرانی تیل پر پابندی لگا دی گئی۔

معاشی ماہرین کے مطابق، بلوچستان میں روزگار کے مواقع کم ہیں اور ایرانی تیل کی سمگلنگ سے ہزاروں افراد کا روزگار وابستہ ہے حکومت متبادل روزگار کے مواقع دے تو اس کاروبار پر لوگوں کا انحصار کم ہوجائے گا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان