کیا بڑوں بزرگوں کا کہا حرفِ آخر ہوتا ہے؟

ہم بھی عجیب معاشرے کے باسی ہیں جہاں پر ہر بات کو گناہ اور ثواب کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔

مشرقی والدین اپنے بچوں کو بالغ ہی نہیں ہونے دیتے اور اگر کوئی بچہ غلطی سے انفرادی طور پر اپنا فیصلہ خود لینے کی جرأت کر بھی لے تو والدین اس فیصلے کو سپورٹ کرنے کی بجائے اس کو اخلاقی طور پر اتنا ڈی گریڈ کر دیتے ہیں کہ وہ خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔ (پکسابے)

ہمارے مشرقی معاشرے میں باپ کو جنت کا دروازہ کہا جاتا ہے اور ماں کے پاؤں تلے جنت ہوتی ہے۔ اسی بنیادی مقدس اصول کے مطابق ہماری مشرقی نسل پروان چڑھتی ہے۔

اسی اصول کی پاسداری کرتے ہوئے ایک مشرقی باپ اپنے اختیارات کا بھرپور استعمال کرتا ہے مثلاً: جب بچہ تھوڑا سا بولنے اور چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے تو اسے عربی پڑھنے کے لیے مدرسے میں داخل کروادیا جاتا ہے اور باپ مولوی صاحب سے یہ جملہ کہتا ہے کہ ’گوشت تمہارا اور ہڈیاں ہماری۔‘  تو بس پھر کیا۔ مولوی صاحب اس جملے کی مکمل لاج رکھتے ہوئے بچے کا ابتدائی بچپن انتہائی سفاکی سے روند ڈالتے ہیں۔ وہ بھی جملے بازی میں باپ سے پیچھے نہیں رہتے اور اپنے شاگرد سے یوں مخاطب ہوتے ہیں کہ ’جہاں جہاں استاد کا ڈنڈا لگے گا، وہاں وہاں جہنم کی آگ اپنا اثر نہیں دکھائے گی۔‘

انتہائی معصومانہ بچپن جس میں بچہ خود سے کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا، اسی دورمیں غیر اختیاری طور پر کسی جبری مسلط شدہ فیصلے کا شکار ہو کراپنے لا ابالی اور خوبصورت بچپن سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ بچپن کی ابتدائی بنیاد اس فطرتاً  آزاد بچے کے لیے ایک ایسا ناسور ثابت ہوتی ہے کہ وہ بالغ ہو کر بھی بالغ نہیں ہوتا اور ساری عمر دوسرے سہاروں کا محتاج بن کر ذہنی اور جسمانی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔

اسی ذہنی معذوری کے زیرِ اثر وہ اپنی زندگی کے فیصلے خود نہ لینے کا عادی ہوجاتا ہے۔ اسی طرح بچہ جب بالغ ہو جاتا ہے تو بھی اپنے فیصلے آزادانہ طور پر لینے کا مجاز نہیں ہوتا بلکہ اسے گھر سے لے کر باہر تک کرنے والے ہر کام کی تصدیق اپنے والدین سے کروانا ضروری ہوتی ہے۔ مثلاً: مذہب کون سا اختیار کرنا ہے اور کس مسلک کی پیروی کرنی ہے، زندگی میں روحانی رہنمائی کے لیے خاندانی پیر کو پیشوا بنانا ہے یا اپنی مرضی سے خود کوئی اپنا روحانی گرو چننا ہے اور پھریہ بالغ اپنی ساری عمر کی نکیل اس روحانی گرو کو پکڑا کر خود کو آزاد کرلینے کے مترادف ہو جاتا ہے۔

یہ مقدس تعلیمات ابتدائی گھٹی کے طور پر مشرقی والدین اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں یہاں تک کہ بچے اپنے کیریئر تک کو چننے میں بھی آزاد نہیں ہوتے۔ مشرقی والدین اپنے بچوں کو بالغ ہی نہیں ہونے دیتے اور اگر کوئی بچہ غلطی سے انفرادی طور پر اپنا فیصلہ خود لینے کی جرأت کر بھی لے تو والدین اس فیصلے کو سپورٹ کرنے کی بجائے اس کو اخلاقی طور پر اتنا ڈی گریڈ کر دیتے ہیں کہ وہ خود اپنی ہی نظروں میں گر جاتا ہے۔

اگر ہم کچھ دیر کے لیے ماں باپ کے فرمودات کو ایک طرف رکھ کر منطقی طور پر سوچنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ منطقی طور پر کسی بھی روپ میں چاہے وہ استاد، والدین، روحانی گرو یا آج کل کی اصطلاح میں موٹیویشنل سپیکرز ہوں، کیا ان سب کا کہا حرفِ آخر کا درجہ اختیار کر سکتا ہے؟ اگرہم کچھ لمحوں کے لیے اس کو درست تسلیم کر بھی لیں تو پھر تو ہماری زندگیاں غاروں میں بہت اچھی گزر رہی تھیں۔ غار سے نکل کر خلا تک کا انسانی سفر اور جدید سے جدید ٹیکنالوجی، کیا یہ سب انسانی معجزے اور کمالات نہیں ہیں؟ زندگی ارتقائی سفر کا نام ہے اور ارتقا کا عمل اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہر بچہ اپنی نیچرل سیلف کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور ہر بچے کے اندر انفرادی سطح کی اعلیٰ صلاحیتیں موجود ہوتی ہیں۔ اگر اس کو پڑوان چڑھنے کے لیے اعلیٰ اور اچھا ماحول مل جائے تو اس کی انفرادی صلاحیتیں پوری آب و تاب کے ساتھ سامنے آنا شروع ہو جاتی ہیں۔ جو بچہ اپنا بچپن اچھے سے جی لیتا ہے، اس کی زندگی کے آگے آنے والے پڑاؤ آسان ہو جاتے ہیں۔ ہمارے مشرقی ماحول میں ایسا کوئی بندوبست نہیں ہے۔ اس معاشرے میں تو بچپن سے ہی بچے کے ذہن میں ابتدائی اخلاقیات کے طور پر کچھ مقدس مورتیاں قائم کر دی جاتی ہیں جیسے بڑوں کا احترام کریں، بزرگوں کے سامنے اپنی آواز نیچی رکھیں، بڑوں سے زبان درازی مت کریں، بڑوں سے سوال نہ کریں اور اپنے بڑوں کی ہر بات کو یقینی اور حتمی جان کر پلے سے باندھ لیں۔

اس روایتی معاشرے میں ایک بالغ شخص کو اپنا جیون ساتھی چنتے وقت بھی ایک بڑی آزمائش سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنی زندگی کے اس اہم فیصلے کی ذمہ داری بھی ہمارے بڑے ہی نبھاتے ہیں اور ان کا فیصلہ ہی حتمی تصور کیا جاتا ہے۔ شادی باہمی رضا مندی سے دو دلوں کا ملن ہوتا ہے لیکن ہمارے سماج میں اس خوبصورت ملن کو روایات کی بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے۔ ذرا تصور تو کیجیے ایسے سماج کا جہاں پیار کی بھاشا بولنے اور اپنے رشتوں کو پیار کے رنگ میں رنگنے کے لیے بھی بڑوں کی رضامندی کی ضرورت پڑتی ہے۔

ہم بھی عجیب معاشرے کے باسی ہیں جہاں پر ہر بات کو گناہ اور ثواب کے ترازو میں تولا جاتا ہے۔ ہمارے سماج میں رشتوں کو عجیب بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ اور ہر لمحے کو کسی نہ کسی روایتی ٹیگ کے ساتھ جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔ سماجی جڑت کی تمام قدرتی خوبصورتیوں کو دقیانوسیت کے چھوٹے چھوٹے خانوں میں قید کرکے اخلاقیات کا غلاف چڑھا دیا جاتا ہے۔نفسیاتی طور پر ان فرمودات کے زیر بحث پروان چڑھنے والی نسل  کوئی بہتر یا آزادانہ فیصلے کر پائے گی؟ میری نظر میں تو ناممکن ہے۔ ریڈی میڈ یا بندھے بندھائے اصول واخلاقیات ایک انسان کی آزادانہ شخصیت کو مسخ کر دیتے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ