پاکستان تحریک انصاف وزرا کا انتخاب کیسے کرتی ہے؟

کیا اس پارٹی میں وزیر بننے کے لیے زیادہ تعلیم یافتہ ہونا شرط ہے یا پھر زیادہ تجربہ۔ دونوں صلاحیتوں میں کسی ایک کے کم ہونے پر کسی شخص کے وزیر بننے کے امکانات کون سے دوسرے عوامل پر ہوگا؟

شوکت یوسفزئی نے کہا کہ تجربہ کار بندوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے (اے ایف پی)

خیبر پختونخوا اسمبلی کی کابینہ میں حالیہ ردوبدل کی خبریں پچھلے کئی ماہ سے گردش میں تھیں۔ جس سے ایک تاثر یہ بھی لیا جا رہا تھا کہ یہ ردو بدل خراب کارکردگی کے باعث کیا جا رہا ہے۔ تاکہ نہ صرف کام کے معیار کو ٹھیک کیا جا سکے بلکہ وزرا کو دی جانے والی اس میٹھی سزا سے عوام کے دل بھی جیت لیے جائیں۔

تاہم چار جنوری کو وازرتوں کی تبدیلی کی خبر نے ایک نئی بحث کو جنم دیا۔ جس سے اس سوال کو تقویت ملتی ہے کہ تحریک انصاف میں دراصل وزیروں اور مشیروں کو قلمدان سونپنے کا معیار کیا ہے؟

کیا اس پارٹی میں وزیر بننے کے لیے زیادہ تعلیم یافتہ ہونا شرط ہے یا پھر زیادہ تجربہ۔ دونوں صلاحیتوں میں کسی ایک کے کم ہونے پر کسی شخص کے وزیر بننے کے امکانات کون سے دوسرے عوامل پر ہوگا؟

یوں تو تحریک انصاف کے اقتدار میں آتے ہی قلمدانوں کے حوالے سے ان پر تنقید ہوتی رہی ہے لیکن خیبر پختونخوا کابینہ میں نئی ردوبدل پر تنقید اس وقت زور پکڑ گئی جب اکبر ایوب کو سی این ڈبلیو سے ہٹا کر وزیر تعلیم بنا دیا گیا، حشام انعام اللہ خان کو وزیر صحت کے قلمدان سے ہٹا کر وزارت سماجی بہبود دی گئی، شہرام ترکئی کو وزیر بلدیات سے وزیر صحت اور ضیا بنگش کو وزیر تعلیم سے وزیر انفارمیشن ٹیکنالوجی بنا دیا گیا۔

ان تمام وزارتوں میں سب سے زیادہ موضوع بحث وزارت صحت اور تعلیم رہا۔ کیونکہ ناقدین کی رائے میں ایک وزیر کو تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود چیلنجنگ عہدے سے ہٹا کر کم اہمیت والی منسٹری دی گئِی۔ جب کہ دوسری جانب ایک میٹرک پاس مشیر کو وزارت تعلیم جیسا اہم قلمدان سونپ دیا گیا۔

دوسری جانب صوبائی اسمبلی اور دوسرے ذرائع سے اس قسم کی خبریں آرہی ہیں کہ تحریک انصاف  کے اندر مختلف گروہ بنے ہوئے ہیں جو عمران خان کو مسلسل دباؤ میں رکھ کر ان سے اپنی مرضی کے فیصلے کروا رہے ہیں۔ اس وجہ سے پارٹی کے وہ ارکان جو کوئی گروہ نہیں رکھتے، وہ ان کی اجارہ داری سے نالاں اور پریشان ہیں۔

ان تمام نکات کو جب انڈپینڈنٹ اردو نے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزی کے سامنے رکھا اور یہ پوچھا کہ دراصل ان کی لیڈرشپ کس بنیاد پر وزرا کو تعینات اور تبدیل کرتی ہے تو اس حوالے سے وہ کوئی تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔ سوائے اس کے کہ یہ پارٹی لیڈرشپ کا استحقاق ہے کہ کس کو کون سی ذمہ داری کب دی جائے۔

شوکت یوسفزئی نے کہا کہ تجربہ کار بندوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے اور اسی کو دیکھتے ہوئے ڈاکٹر امجد جو پچھلی حکومت میں منسٹر ہاؤسنگ تھے کو اس بار بھی دوبارہ وہی وزارت دی گئی۔ اسی طرح شہرام ترکئی بھی پچھلی حکومت میں وزارت صحت چلانے کا تجربہ رکھ چکے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر اطلاعات کے اس بیان کے بعد سوال یہ ہے کہ اگر ڈاکٹر امجد کو دوبارہ اچھی کارکردگی پر ہاؤسنگ منسٹری دی جا سکتی تھی تو شہرام ترکئی کو تجربے کی بنیاد پر ابتدا ہی سے وزارت صحت میں کیوں نہیں لگایا گیا۔ تاکہ موجودہ ردوبدل کی نوبت ہی پیش نہ آتی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے موجودہ وزیر تعلیم اکبر ایوب کا موقف لینے کی بھی کوشش کی لیکن ان کی جانب سے کوئی جواب موصول نہ ہونے پر ان کے بڑے بھائی یوسف ایوب جو کہ ماضی میں وزیر تعلیم رہ چکے ہیں نے عوام کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ اگر کسی کو ان کے بھائی کے میٹرک پاس ہونے پر اعتراض ہے تو وہ  تب کیوں خاموش تھے جب وہ سات سال سی اینڈ ڈبلیو کے محکمے کے مشیر تھے۔

’میرے بھائی برن ہال سے پڑھے ہوئے ہیں۔ ان کی جتنی قابلیت کئی بی اے اور ایم اے پاس میں نہیں ہے۔ وہ سی اینڈ ڈبلیو جیسا  تکنیکی محکمہ چلاتے رہے ہیں جو کہ وزارت تعلیم سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے۔ اکبر نے ہی سی اینڈ ڈبلیو میں پہلی دفعہ شفافیت لانے کے لیے آن لائن  رجسٹریشن، آن لائن بڈنگ اور آن لائن بلنگ متعارف کروائے۔ وزیر تعلیم بننا میرے بھائی کی مرضی سے نہیں ہوا، انہیں یہ ٹاسک دے دیا گیا جس کو انہوں نے قبول کیا۔‘

یوسف ایوب سے جب یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ سچ ہے کہ ان کے خاندان کی پی ٹی آئی قیادت کے ساتھ  قریبی تعلق کے باعث انہیں نوازا جاتا رہا ہے اور اسی لیے اکبر ایوب وزیر تعلیم بنا دیے گئے ہیں۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ اس بنیاد پر نہیں ہوتا کہ کب عمران خان کی مرضی ہوئی تو کسی کو کہیں پر لگا دیا۔ یہ ایک باقاعدہ طریقہ کار ہوتا ہے۔

’اچھے عہدے دینا قابلیت اور تجربے کے ساتھ ووٹرز کی تعداد پر بھی منحصر ہوتا ہے۔  میرے دو بھائی اس وقت صوبائی اسمبلی میں اور ایک چچا زاد عمر ایوب نیشنل اسمبلی میں ہیں۔ عمر جنرل انتخابات میں ایک لاکھ 52 ہزار ووٹ لے کر پورے پاکستان میں پہلے نمبر پر رہے۔ اکبر ایوب 67  ہزار ووٹ لے کر خیبر پختونخوا میں پہلے نمبر پر رہے اور کے پی میں ہی ارشد ایوب میرے دوسرے بھائی 57 ہزار ووٹ لے کر  دوسرے نمبر پر رہے۔‘

اکبر ایوب پر سی اینڈ ڈبلیو میں کرپشن اور حال ہی میں اپنے گاؤں ریحانہ میں ایک  شاندار بنگلہ تعمیر کروانے کے الزامات کے حوالے سے بھی ان کے بھائی یوسف ایوب سے پوچھا گیا جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ وہ کارخانہ دار اور کاروباری لوگ ہیں لہذا ان کی اتنی حیثیت ہے کہ خود اپنے پیسوں سے گھر لے سکیں اور تعمیر کروا سکیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر وہ کرپٹ ہوتے تو نیب کب کا ان کو پکڑ چکی ہوتی۔

موجودہ سیاسی صورتحال پر نوجوان بھی گہری نظر رکھے ہوئے ہیں جو گاہے بگاہے سوشل میڈیا پر اس کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ ان ہی میں سے جرنلزم کے ایک طالب علم کاشف خان بھی ہیں۔

انہوں نے سابق وزیر حشام انعام اللہ کو ایک مشہور ریسلر رائیبک سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا کہ جب ان کو ریسلنگ سے نکالا گیا تو انہوں نے کہا تھا کہ انہیں ادارے کی جانب سے سکرپٹ کے مطابق ولن کا کردار دیا گیا تھا۔ وہ عوام میں اپنے خلاف نفرت بڑھا کر اپنے مقابل سے ہار جایا کرتا تھا اور عوام میں ان کے لیے ناپسندیدگی بڑھ جاتی تھی اس طرح آہستہ آہستہ ان کی ریٹنگ کم ہوتی گئی اور بلاآخر ادارے نے ان کو نکال باہر کیا۔

انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف صحت میں اصلاحات لائی جس کا خمیازہ سابق وزیر صحت کو بھگتنا پڑا۔

صوبائی کابینہ میں ردوبدل کے بعد اکبر ایوب کی تعلیمی اہلیت کی خبر سب سے پہلے سینیئر صحافی محمود جان بابر نے بریک کی تھی۔ ان کا وزرا کی سلیکشن اور موجودہ صورتحال کے بارے میں کہنا ہے کہ تحریک انصاف ابتدا میں اپنے منشور کو آگے لے کر جانا چاہتی تھی لیکن اب اس کی ترجیحات بدل کر منشور کی جگہ حکومت بچانے میں لگی ہوئی ہے۔

’جب ایک ورکر سیاسی پارٹی میں شمولیت اختیار کرتا ہے تو اس کے لیے پارٹی کا منشور ہی سب کچھ ہونا چاہیے اور اسی کے سامنے سر تسلیم خم کرنا اس کا نصب العین ہونا چاہیے۔ تاہم سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔ تحریک انصاف کے اندر کچھ پریشر گروہ بنے ہوئے ہیں جو پارٹی سے اپنی خواہشات کی تکمیل کروا رہے ہیں۔ لہذا بجائے ورکرز سرینڈر ہوتے، تحریک انصاف ان پریشر گروپس کے سامنے لیٹ گئی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ جہاں ایک طرف  پی ٹی آئی نے ایک کم تعلیم یافتہ کارکن  کو وزارت تعلیم سے نوازا وہیں ایک پڑھے لکھے وزیر کو صرف اس وجہ سے نکالا گیا کیونکہ ڈاکٹروں اور وزیر صحت کی ایک دوسرے سے اصلاحات کی بنیاد پر نہیں بنتی تھی۔

’ایسے حالات میں حکومت کو چاہیے تھا کہ اپنے وزیر کے پیچھے ڈٹ کر کھڑِی ہوتی کیونکہ وزیر صحت آپ کی بنائی اصلاحات کے لیے لڑ رہے تھے لیکن آپ نے سمجھوتہ کر کے ان کو ہی ایک طرف کر دیا۔ اس ساری کہانی میں وژن کا تو جنازہ نکل گیا، ان سمجھوتوں کا جواب آپ کیسے دیں گے؟‘

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست