مشرق وسطیٰ میں کئی اہم معاہدے کرانے والے سلطان قابوس

اپنی نجی زندگی کو خفیہ رکھنے والے سلطان قابوس عرب دنیا میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے حکمران تھے۔

سلطان قابوس 25 نومبر، 2010 کو  مسقط میں ملکہ برطانیہ کے ہمراہ (اے ایف پی)

عمان کے سلطان قابوس جمعے کو 79 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انھوں نے ترقی پذیر ریاست عمان کو ایک جدید سلطنت میں تبدیل کرنے کے علاوہ کشیدگی کے شکار خطے میں ثالثی کا اہم کردار ادا کیا۔

اے ایف پی کے مطابق اپنی نجی زندگی کو خفیہ رکھنے والے سلطان قابوس عرب دنیا میں سب سے طویل عرصے تک حکمرانی کرنے والے تھے، جنھوں نے بظاہر کوئی جان نشین نہیں چھوڑا تاہم الجزیرہ ٹی وی کے مطابق ان کے کزن ہیثم بن طارق عمان کے اگلے حکمران کے طور پر حلف اٹھا چکے ہیں۔

عمانی آئین کے مطابق شاہی خاندان کو تین دن کے اندر خفیہ طور پر اگلا حکمران چننے کا فیصلہ کرنا تھا اور اگر وہ ایسا نہ کر پاتے تو پھر سلطان قابوس کے خط میں درج نام کو عمان کا حکمران منتخب ہونا تھا۔

قابوس 18 نومبر، 1940 کو جنوبی صوبے صلالہ کے السعید خاندان میں پیدا ہوئے۔ عمان اس وقت جدید دنیا سے بالکل الگ تھلگ ایک تنہا ملک ہوا کرتا تھا۔

ادھیڑ عمر عمانی یاد کرتے ہیں کہ دارالحکومت مسقط میں بجلی اور پانی نہیں ہوتا تھا اور قدیم شہر کے دروازے مغرب کے وقت مقفل کر دیے جاتے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوجوان قابوس کو تعلیم حاصل کرنے کے لیے برطانیہ بھیجا گیا تھا، جہاں انھوں نے سینڈ ہرسٹ رائل ملٹری اکیڈمی سے 1962 میں گریجوایشن کی، جس کے بعد وہ برطانیہ کی انفنڑی بٹالین میں شامل ہوگئے۔ ملک واپس آنے کے بعد ان کا زیادہ تر وقت اپنے والد سلطان سید بن تیمور کی نگرانی میں گزرا۔

23 جولائی 1970 کو انھوں نے ایک بغاوت میں اپنے والد کا تختہ الٹ کر حکومت پر قبضہ کر لیا اور اپنی قوم کے لیے ’ایک نئے دور‘کا وعدہ کیا۔

عمان آبنائے ہرمز کے اہم تزویراتی مقام پر واقع ہے۔ یہ تنگ سمندری راستہ دنیا کے زیادہ تر تیل کی رسد گاہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور یہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان واقع ہے۔

قابوس نے تہران اور ریاض دونوں کے ساتھ اچھے تعلقات قائم رکھے اور اسی توازن کی وجہ سے مسقط کو مغربی اور یورپی سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ عسکری حکام میں بھی اہم حیثیت حاصل ہے۔ 

انھوں نے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلا دورہ ایران کا کیا کیونکہ شاہ ایران اور برطانیہ کی مدد سے سلطان قابوس نے ظفار کے صوبے میں اپنے والد کے دور سے چلی آرہی مارکسٹ عسکریت پسندی پر قابو پایا تھا۔

ایران میں 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد شیعہ مذہبی طبقے کے اقتدار کے باوجود یہ تعلقات جاری رہے۔

مسقط نے سعودی عرب اور ایران کے درمیان ہونے والے بیک چینل ڈپلومیسی میں اہم کردار ادا کیا تھا، جس کے بعد 2015 کا تاریخی جوہری معاہدہ ممکن ہو سکا۔ سلطان قابوس نے سعودی عرب سمیت خلیجی تعاون کونسل سے تعلق رکھنے والے باقی چھ متمول ممالک سے بھی تعلقات قائم رکھے لیکن وہ عدم مداخلت کے اصول پر سختی سے کاربند رہے۔

عمان خلیج تعاون کونسل سے تعلق رکھنے والا وہ واحد ملک تھا جو سعودی قیادت کے تحت یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کے خلاف بننے والے اتحاد سے باہر رہا۔ اسی غیر جانب داری کی وجہ سے عمان نے یمن میں لڑنے والے متحارب گروہوں سے تعلق رکھنے والے یرغمالیوں کے تبادلے میں اہم کردار ادا کیا۔

مسقط امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ بھی قریبی معاشی اور دفاعی تعلقات رکھتا ہے۔ باقی عرب ریاستوں کی طرح قابوس نے مصر اور اسرائیل کے درمیان 1979 میں ہونے والے امن معاہدے کی مخالفت نہیں کی اور 1990 کی دہائی میں عمان کی جانب سے اسرائیل میں ایک تجارتی دفتر کھولا گیا تھا جو کہ 2000 میں ہونے والے فلسطینی مزاحمت کے دوران بند کر دیا گیا۔

اکتوبر 2018 میں اسرائیلی وزیر اعظم بنی یامین نتین یاہو مسقط میں سلطان قابوس سے ’اچانک‘ مذاکرات کرنے پہنچے تو فلسطینیوں میں تشویش پھیل گئی۔

2011 کی عرب بہار کے دوران بھی قابوس کو بڑے پیمانے پر مظاہروں کا سامنا نہیں کرنا پڑا لیکن انھوں نے کرپشن الزامات کے بعد وزرا کو نکال کر ان کا جواب دیا۔ ان کی حکومت میں حزب اختلاف کے لیے کوئی جگہ نہیں تھی۔ تنقید کرنے والے آزاد اخبار ازامان کو بند کر کے اس کے مدیر کو جیل بھیج دیا گیا۔

قابوس نے ایک مکمل نامعلوم شخص کے طور پر اقتدار سنبھالا تھا جس کے بعد تقریباً پانچ سال کا عرصہ انھوں نے پہاڑوں سے لے کر ساحلوں تک رہنے والے اپنے ہم وطنوں سے روابط بڑھانے پر صرف کیا۔

مسقط میں کام کرنے والے سیاسی تجزیہ کار احمد المخینی کہتے ہیں: ’ابتدائی برسوں میں وہ گاؤں گاؤں جا کر اور ہفت روزہ ریڈیو خطابات کے ذریعے اپنی عوام سے رابطے میں رہے۔ اس وقت عوام تک رسائی کا یہ طریقہ تھا۔‘

قابوس نے تیل سے حاصل ہونے والے آمدنی کو ملکی انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے لیے استعمال کیا۔ انھوں نے ملک میں قائم چند سکولوں اور آٹھ کلو میٹر کی سڑک کو ایک جدید ریاست میں ہزار سکولوں اور سڑکوں کے وسیع نیٹ ورک تک پھیلایا۔

 

سلطان نے مسقط میں ایک اوپرا ہاؤس کی بنیاد بھی رکھی جس کا مصروف شیڈول ملک میں اس کی مقبولیت کی گواہی ہے۔ لیکن قابوس صرف ایک علامتی بادشاہ نہیں تھے۔ انھوں نے ملک کے تمام اعلیٰ عہدے اپنے پاس رکھے تھے ان میں فوج کے کمانڈر اور وزیر خزانہ کے عہدے بھی شامل تھے۔  
 
1991 میں انھوں نے جمہوری اصلاحات کے طور پر ایک مشاورتی کونسل قائم کی جس کے تمام ارکان منتخب تھے۔ یہ سٹیٹ کونسل کا متوازی ادارہ تھا جس کے ارکان وہ خود مقرر کرتے تھے۔

تقریباً 50 سالہ دور اقتدار میں قابوس نے 1976 میں ہونے والے ایک مختصر تعلق کے بعد دوبارہ کبھی شادی نہیں کی۔

اپنے آخری سالوں میں وہ سرطان کے باعث عوامی اجتماعات میں کم ہی شرکت کرتے تھے۔2015 سے جرمنی میں ان کا علاج کیا جا رہا تھا لیکن جب بھی وہ سامنے آتے تو اپنے نفیس لباس، مخصوص جبے اور رنگین عمامے میں ملبوس ہوتے تھے۔

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا