خادم رضوی کے بھائی سمیت 86 ٹی ایل پی کارکنوں کو سزا

علامہ خادم رضوی کی گرفتاری پر ہنگامہ آرائی، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور مار پیٹ کے مقدمے میں مجرموں کو بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے ہیں۔

علامہ خادم حسین رضوی  دو نومبر، 2018 کو لاہور میں ایک مظاہرے کے دوران اپنے حامیوں سے خطاب کرتے ہوئے(اے ایف پی)

راولپنڈی کی ایک عدالت نے جمعرات کی رات تحریک لبیک پاکستان کے 86 کارکنوں کو 2018 میں پرتشدد مظاہروں میں حصہ لینے پر 55، 55 سال قید کی سزائیں سنائی ہیں۔

سزا پانے والوں میں پارٹی کے سربراہ علامہ خادم رضوی کے بھائی علامہ امیر حسین رضوی بھی شامل ہیں۔

مجرموں کو مجموعی طور پر ایک کروڑ 29 لاکھ 25 ہزار روپے جرمانہ ادا کرنا ہو گا، بصورت دیگر انھیں مزید 146 سال قید کاٹنا ہو گی۔ عدالتی فیصلے سنائے جانے کے بعد پولیس نے مجرموں کو اٹک جیل بھجوا دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پارٹی کے سینیئر رہنما پیر اعجاز اشرفی نے کہا ہے کہ سزاؤں کے خلاف اعلیٰ عدلیہ میں اپیل دائر کی جائے گی۔

اشرفی نے اے پی سے گفتگو میں کہا کہ انھیں انصاف نہیں ملا لہٰذا وہ اپیل دائر کریں گے۔

علامہ خادم رضوی کی گرفتاری پر ہنگامہ آرائی، عوامی املاک کو نقصان پہنچانے اور مار پیٹ کا یہ مقدمہ راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کی عدالت میں ایک سال سے زائد عرصے تک چلتا رہا۔

ٹی ایل پی کی مختصر تاریخ

گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل پولیس اہلکار کو سزائے موت ملنے کے بعد ان کے ایک بہت بڑے جنازے کا اہتمام کیا گیا۔ جنازے کے بعد کچھ مذہبی رہنماؤں نے اسلام آباد کا رخ کرتے ہوئے ڈی چوک پر دھرنا دیا۔

اس واقعے نے تحریک لبیک پاکستان کو جنم دیا اور بعد ازاں پاکستانی سیاست میں ختم نبوت کے معاملے نے ایک بار پھر اہمیت اختیار کر لی۔

2017 میں انتخابی اصلاحات کے باعث انتخابی فارم میں ختم نبوت حلف نامے میں ترمیم پر تحریک لبیک متحرک ہوئی اور ایک بار پھر دھرنا دیا۔

تحریک لبیک پاکستان نے 2018 کے انتخابات میں حصہ لیا اور سندھ اسمبلی میں نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئی۔

جب سپریم کورٹ نے آسیہ مسیح کو توہین رسالت کے ایک مقدمے سے بری کیا تو ٹی ایل پی نے ملک بھر میں دھرنے دے کر نظام زندگی مفلوج کر دیا۔

دھرنوں کے دوران شعلہ بیان علامہ خادم رضوی نے پرجوش تقاریر کیں اور کارکنوں اور ہمدروں کو احتجاج پر اکسایا، جس کے بعد انھیں گرفتار کرتے ہوئے ان کا میڈیا بلیک آؤٹ کر دیا گیا تھا۔

مئی، 2019 میں خادم حسین رضوی اور پیر افضل قادری کو دو ساتھیوں سمیت جیل سے رہا کردیا گیا، جس کے بعد انھوں نے دوبارہ پرتشدد راستہ نہیں اپنایا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان