کپتان سے کون کون ناراض؟

’ تبدیلی کا آغاز کہاں سے ہو گا، کب ہو گا یہ سوال ثانوی ہیں۔ سب سے اہم یہ جاننا ہے کہ تبدیلی سے تبدیلی کون چاہتا ہے اور یہ جانچنا ہے کہ ایسا کوئی کیوں چاہتا ہے؟‘

ایک طرف کارکردگی پر چاروں طرف سے تنقید کی بارش اور دوسری جانب سیاسی محاذ پر بڑھتی ہوئی رسہ کشی عمران خان کے لیے مشکلات بڑھا رہی ہے (اے ایف پی فائل)

شہر اقتدار میں پھر تبدیلی کی افواہیں گردش کر رہی ہیں، سیاسی جوڑ توڑ زوروں پر ہے اور تجزیہ کار ہر سیاسی حرکت اور بیان پر فال نکال رہے ہیں۔ اب تک کے حالات کا جائزہ لیں تو کپتان کے لیے پچ پر کھڑے رہنا کافی مشکل لگتا ہے۔

پنجاب میں بڑے پیمانے پر ہونے والی سیاسی شعبدہ بازی سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس بساط پر پہلا مورچہ کہاں لگے گا۔ تبدیلی کا آغاز کہاں سے ہو گا، کب ہو گا یہ سوال ثانوی ہیں۔ سب سے اہم یہ جاننا ہے کہ تبدیلی سے تبدیلی کون چاہتا ہے اور یہ جانچنا ہے کہ ایسا کوئی کیوں چاہتا ہے؟ امپائر کی جس انگلی پر کپتان نازاں تھے لگتا ہے کہ وہ انگلی اب ان کی حکومت کو تگنی کا ناچ نچانے کے لیے ڈوریاں ہلا رہی ہے۔ نظام کی کھوکھلی بنیادوں کی حقیقت جاننے والے جانتے ہیں کہ حزب اختلاف کے رہنماؤں کو ایک دم ریلیف مل جانا حسن اتفاق نہیں تھا۔ اسی طرح اتحادیوں کا ایک ساتھ روٹھ جانا بھی اتفاق نہیں ہے۔

کپتان کے لیے اصل امتحان اتحادیوں کو منانا نہیں ہے بلکہ یہ سمجھنا ہے کہ جس غیبی مدد کے آسرے پر وہ اپنی سیاسی ساکھ کو بار بار داؤ پر لگاتے رہے ہیں وہ غیبی مدد غائب ہو جانے کی صورت میں وہ حالات کو سنبھالیں گے کیسے؟ ایک بار پھر پوشیدہ طاقتوں کا چرچا ہے جن کے سر حکومت کی تشکیل کے وقت اتحادیوں کو حکومت میں شامل کرانے کا الزام تھا۔ اگرچہ سیاسی جماعتیں پورا زور لگا کے اس تاثر کی نفی کرتی رہی ہیں مگر اتحادیوں کی باجماعت ناراضی نے  یہ تاثر پختہ کر دیا ہے کہ ان سب کی ڈور کسی اور کے ہاتھ ہے۔

یہ تاثر مضبوط مانا جا رہا ہے کہ طاقت وروں کا اشارہ ہی اتحادیوں کے مزاج بگڑنے کا سبب ہے۔ اس بات پر ایمان لانا کافی مشکل ہے کہ اتحادی جماعتوں کو واقعی عوام کی مشکلات کا احساس ہونے لگا ہے۔ جس رفتار اور انداز سے حکومت کے لیے مسائل بڑھ رہے ہیں اس کو دیکھتے ہوئے حکومت میں تبدیلی یا حکومت کی تبدیلی کی افواہوں میں کوئی نا کوئی صداقت نظر آتی ہے۔

تبدیلی کی ہوا کا زیادہ زور پنجاب میں ہے۔ بظاہر تو یہ نظر آتا ہے کہ وسیم اکرم پلس کو ٹیم سے ڈراپ کرنے کے لیے کپتان پر دباؤ بڑھ رہا ہے۔ لیکن عقل یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ ایک سیدھے سادھے بےضرر بزدار کو تبدیل کرانے کے لیے بلوچستان کراچی، لاہور اور مرکز میں اتنی بڑی بساط بچھائی جائے۔ لگتا ہے مسئلہ بزدار سے ذیادہ کپتان کی ضد کا ہے جو انھیں بزدار سے دست بردار ہونے نہیں دے رہی۔ اس ضد سے باہر والوں کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی لوگ ناخوش ہیں۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن کے معاملے پر قائم ہونے والی سیاسی خوشگواریت جس طرح بھک سے ہوا میں تحلیل ہوئی ہے وہ ایک قدرتی عمل کا نتیجہ ہر گز نہیں ہو سکتی۔ ہر چیز باقاعدہ منصوبے کے تحت ہوتی دکھائی دیتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک طرف کارکردگی پر چاروں طرف سے تنقید کی بارش اور دوسری جانب سیاسی محاذ پر بڑھتی ہوئی رسہ کشی عمران خان کے لیے مشکلات بڑھا رہی ہے۔ آج کے باشعور شہری اور سیاسی کارکنوں کے لیے یہ پیغام انتہائی اہم ہے کہ کپتان کی ٹیم کی کارکردگی پر ان کے اپنے اتحادی مطمئن نہیں۔ حالیہ روٹھنے منانے کے مظاہروں کو دیکھ کر ان ہاؤس تبدیلی کے حوالے سے ن لیگ کے رہنماؤں کے دعوے نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ مولانا کیا لینے آئے تھے اور کن یقین دہانیوں پر واپس گئے تھے۔ ایک ایک کر کے بلیاں تھیلوں سے باہر نکل رہی ہیں۔ سیاسی سرکس کے گر اور گُرو کی روش جانتے ہوئے یہ کہنا ذرا مشکل ہے کہ ایک محض اتفاق کے نتیجے میں حکومت کے سارے اتحادی ایک دم ہی بدک گئے ہیں۔ ایسے جیسے سب کو کسی نے ڈنک مار دیا ہو۔

زہر کی تاثیر حیرت انگیز ہے کیونکہ اچانک ہی عوام کی تکالیف اور مشکلات کا درد سارے اتحادی رہنماؤں کے پیٹ میں اٹھنے لگا ہے۔ اتحادی جیسے گہری نیند سے جاگے ہیں انہیں اپنے ووٹرز کو منہ دکھانے کا خیال آ گیا۔ اتحادی جماعتیں اپنی سیاسی ساکھ بحال کرنے کے مشن پر لگی  نظر آتی ہیں۔ ق لیگ تو پنجے تیز کر کے پنجاب میں ہونے والی مبینہ کرپشن پر دہائیاں دیتی میڈیا پر براجمان ہے۔ ان کے ساتھ ہم آواز حکومتی وزرا بھی کھل کر پنجاب میں بزدار حکومت کی بری کارکردگی پر تنقید کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ کا امکان بھی رد نہیں کیا جا سکتا۔ پنجاب اسمبلی کے ناراض ارکان کا ایک گروپ وزیر اعلیٰ پنجاب کو اپنے مطالبات پورے کرنے کے لیے فروری تک کی مہلت کا اعلان کر چکا ہے۔ حکومتی وفود سب روٹھے ہوئے کے گھروں کے چکر کاٹ رہے ہیں لیکن حالات جلد درست ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

حزب اختلاف چند ماہ سے 2020 کو انتخابات کا سال قرار دے رہی ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اپنی تحریک کے اگلے پڑاؤ کے لیے پر تول رہے ہیں۔ عمران خان اس سارے دباؤ سے نکلنے کے لیے کیا کوشش کر سکتے ہیں اس سے پہلے یہ معلوم کرنا ضروری ہے کہ آیا وہ حالات کی نزاکت کا ادراک رکھتے ہیں۔ ان کے کسی اقدام سے ایسا تاثر نہیں ملتا۔ عمران خان صاحب اگرچہ زرداری اور نواز شریف کو ملنے والے ریلیف پر کافی ناخوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ دوبارہ ان کے گرد گا احتساب کا گھیرا تنگ کیا جائے۔

لیکن کیا عمران خان کے ہاتھ میں سارے معاملات کو طے کرنے کی طاقت ہے؟ جن اقدامات کو ان کی حکومت اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کے لیے استعمال کر سکتی تھی وہاں بھی ان کے وزرا فوج کو کریڈٹ دیتے اسلام آباد کی محفلوں میں موضوع بحث سیاسی تبدیلی کی قیاس آرائیوں  کا راستہ پنڈی کی طرف کیوں جاتا ہے۔ ماضی میں سیاسی جوڑ توڑ کے پیچھے نوٹ اور ووٹ کی تکرار تھی نوٹ دکھا کے سیاسی وفاداریوں کو بدلنا اشرافیہ کے لیے عام بات تھی۔ نوٹ اور ووٹ کا جھگڑا بازاروں اور چوراہوں کی زینت بنا ہی رہتا تھا۔ اس رقابت کی کہانی میں بوٹ دھم دھم کرتے آئے اور ساری کہانی بدل گئی۔

سالوں سیاسی پروگرامز کی میزبانی کرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ پروگرام کے دوران استعاروں میں فوج کے حوالے دینے والے سیاستدان سے پروگرام کی بریک میں پوچھا جائے کہ آپ کا اشارہ کس طرف تھا تو بھی وہ براہ راست فوج کا نام نہ لیتے۔ بس فرشتوں کا اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے۔ ملک میں اصل طاقت کس کے پاس ہے؟ یہ بحث رسمی اور غیررسمی علمی اور غیرعلمی محفلوں میں ہمیشہ ہی ایک محتاط انداز میں ہوتی رہی ہے۔ لیکن کبھی عوام کے ووٹ اور فوج کے بوٹ اس انداز میں آمنے سامنے نہیں آئے جیسا کہ اب ہونے لگا ہے۔

ستر، اسی اور نوے کی دہائی میں اہم ترین معاملات کے پیچھے فوج کے ملوث ہونے کا ذکر ہوتا تھا تو اس میں شک کی گنجائش رکھی جاتی تھی۔ مگر اب عالم یہ ہے کہ اداکارہ کو ایوارڈ ملنے کے معاملے سے لے کر ٹویٹ اور ری ٹویٹ، اینکر اور تجزیہ کار کے چناؤ اور وینا ملک کے بیانات تک ہر چیز کے پیچھے فوج کا ہاتھ ہونے کا ذکر آتا ہے۔ اس لیے سیاسی حالات کے اتار چڑھاؤ پر بھی سب کی نظریں اس سرے کی تلاش میں جہاں علم ہو سکے کہ آخر ایک دم سب کچھ عمران خان کے خلاف کیوں جانے لگا۔ آرمی چیف کی مدت ملازمت پر قانون سازی کے بعد عمران خان کے اقتدار میں پاؤں مظبوط ہونے چاہیے تھے مگر یہاں تو الٹا چکر چل پڑا ہے۔

ایک طرف مہنگائی کا بے قابو ہوتا جن عوام کے مسائل کو بڑھا رہا ہے۔ اس پر حکومتی ارکان کی جانب سے اپنی ناکامیوں کا دفاع کرنے کا بےتکا طریقہ جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے۔ عمران خان کو چاہیے کہ اتحادیوں سے پہلے اپنے وزرا کو اس بات پر منائیں کہ وہ روٹی کے سائز اور قیمت جیسی گفتگو اور بوٹ کو فخر سے اٹھا اٹھا کر ان کے سیاسی مستقبل کو اندھیرے میں نہ دھکیلیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ