بجٹ 20-2019: کیا اتحادی جماعتوں کی ناراضگی حکومت کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے؟

حکومت کو بجٹ کی منظوری کے لیے 172 اراکین کی حمایت درکار ہے، اگر ایم کیو ایم، بی این پی اور آزاد اراکین مخالفت کا فیصلہ کرتے ہیں تو حکومت کے پاس بجٹ منظور کروانے کی اکثریت نہیں رہے گی۔

پاکستان تحریک انصاف کو اپنی حکومت کا پہلا وفاقی بجٹ منظور کروانے کے لیے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت درکار ہوگی جو اسے ایوان کے 342 اراکین میں سے 172 کی حمایت سے حاصل ہو سکتی ہے (فوٹو فائل، روئٹرز)

وفاقی حکومت 11 جون کو آئندہ مالی سال 20-2019 کا بجٹ پارلیمان کے ایوانِ زیریں میں پیش کرنے جارہی ہے، تاہم اگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی دو اہم اتحادی جماعتیں بجٹ کی منظوری کے سلسلے میں اس کا ساتھ نہیں دیں گی تو وفاقی حکومت کو بجٹ کی منظوری میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کو اپنی حکومت کا پہلا وفاقی بجٹ منظور کروانے کے لیے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت درکار ہوگی جو اسے ایوان کے 342 اراکین میں سے 172 کی حمایت سے حاصل ہو سکتی ہے۔

 قومی اسمبلی میں اراکین کی تقسیم کچھ یوں ہے۔ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی ٹکٹ پر کامیاب ہونے والے اراکین کی تعداد 156 ہے، جبکہ اس کی اتحادی جماعتوں میں مسلم لیگ قائد کے پانچ اراکین، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم - پاکستان) کے سات ایم این ایز، گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے تین، بلوچستان عوامی پارٹی کے چار، بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے چار اور شیخ رشید کی عوامی مسلم لیگ کا ایک رکن شامل ہے۔

اس کے علاوہ ایوان میں موجود چار آزاد اراکین نے وزیر اعظم کے عہدے کے لیے انتخاب میں عمران خان کے حق میں اپنے ووٹ استعمال کیے تھے۔

11 جون کے بجٹ اجلاس میں آزاد ایم این ایز علی وزیر اور محسن داوڑ، جو پشتون تحفظ موومنٹ سے منسلک ہیں، شریک نہیں ہو سکیں گے کیونکہ وہ پولیس کی حراست میں ہیں۔

ابھی ہم فرض کر لیتے ہیں باقی کے دو آزاد اراکین پی ٹی آئی کے حمایتی ہی رہیں گے۔ یوں پی ٹی آئی کی حکومت کو قومی اسمبلی میں 183 اراکین کی حمایت حاصل ہے۔ جو سادہ اکثریت 172 سے زیادہ ہی ہے۔

تاہم اگر بی این پی اور ایم کیو ایم - پاکستان نے بجٹ پر حکومت کی مخالفت کا فیصلہ کیا تو وفاقی حکومت کے لیے ایوان سے بجٹ منظور کروانا مشکل ہو سکتا ہے۔

دونوں جماعتیں حکومت سے گلہ کرتی رہی ہیں کہ ان کے مطالبات اور ان سے کیے جانے والے وعدے پورے نہیں ہوئے۔

علی وزیر اور محسن داوڑ کی گرفتاری کے باعث دو آزاد اراکین، علی نواز شاہ اور محمد اسلم بھوتانی، بھی بجٹ کی منظوری میں حکومت سے راہیں الگ کر سکتے ہیں۔

آزاد اراکین کا لائحہ عمل جاننے کے لیے جب انڈپینڈنٹ اردو نے میر پور خاص سے آزاد رکن قومی اسمبلی علی نواز شاہ سے رابطہ کیا تو انہوں نے کوئی واضح بات کرنے سے گریز کیا۔ ان کا کہنا تھا: ’میں اسلام آباد آرہا ہوں۔ وہاں آپ کو جواب دوں گا۔‘

قومی اسمبلی میں ایم کیو ایم، بی این پی اور آزاد اراکین کی مجموعی تعداد 13 بنتی ہے۔ اگریہ تینوں گروہ بجٹ کی منظوری میں حکومت کی مخالفت کا فیصلہ کرتے ہیں تو  پی ٹی آئی حکومت کی قومی اسمبلی میں حمایت 183 سے کم ہو کر 170 رہ جائے گی، جو سادہ اکثریت سے دو اراکین کم اور بجٹ کی منظور کے لیے ناکافی ہے۔

ان 13 اراکین کو اپنے ساتھ رکھنے کا حکومت کے پاس یہی طریقہ ہے کہ بجٹ کے ذریعے ان کے مطالبات پورے کیے جائیں۔

اس بارے میں سینئیر صحافی زیشان حیدر کا کہنا تھا کہ سیاست میں یہ مخالفتیں معمول کی بات ہے۔ ان کے خیال میں حکومت ناراض اتحادیوں کو منانے میں کامیاب ہو جائے گی۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’حکومت کے پاس بجٹ میں اتحادیوں کو خوش اور مخالفین کو تنگ کرنے کے کافی آپشنز ہوتے ہیں۔‘

زیشان حیدر کے مطابق حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ میں اتحادیوں کے لیے دل کھول کر فنڈز رکھے گی اور یوں سب ٹھیک ہو جائے گا۔

انہوں نے مزید کہا کہ بی این پی کے وزیر اعظم عمران خان کی حکومت سے گلے شکوے بہت زیادہ ہیں اور جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل ان کا برملا اظہار کرتے رہے ہیں۔ حتیٰ کے رمضان کے دوران انہوں نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کی حذب اختالف کی جماعتوں کے اعزاز میں دی جانے والی افطار میں بھی شرکت کی تھی۔

افطار کے لیے جمع ہونے والی حذب اختلاف کی جماعتوں نے عیدالفطر کے بعد آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کا فیصلہ کیا جس میں حکومت مخالف احتجاج کا مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیے جانے کا امکان ہے۔

بی این پی کی مرکزی کمیٹی کے رکن اور ایم این اے  محمد ہاشم نوتیزئی نے بتایا کہ حکومت ان کی جماعت کے ساتھ کیے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔

ان کے مطابق حکومت کی تشکیل کے وقت بی این پی نے بلوچستان سے متعلق چھ نقاتی ایجنڈا پیش کیا تھا اور اس وعدے پر عمران خان کی حمایت کی تھی کہ ایک آٹھ رکنی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو ان نقاط کا جائزہ لے گی اور حل تجویز کرے گی۔

بی این پی کے مطالبات میں لاپتہ افراد کی بازیابی، نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد، وفاقی حکومت میں بلوچستان کے چھ فیصد کوٹے پر عمل در آمد، افغان پناہ گزینوں کی واپسی اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کے لیے بلوچستان میں ڈیموں کی تعمیر شامل ہیں۔

ہاشم نوتیزئی نے کہا کہ سردار اختر مینگل کمیٹی بنانے کا بار بار مطالبہ کرتے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ جہانگیر ترین اور شاہ محمود وریشی سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔

انہوں نے کہا: ’ہم سیاسی لوگ ہیں۔ ہمیں اپنے ووٹرز اور حمایتیوں کو جواب دینا ہوتا ہے اور اگر بلوچستان کے مسائل حل نہیں ہوتے تو ہم کیسے حکومت کی حمایت جاری رکھ سکتے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہاشم نوتیزئی نے مزید کہا کہ بجٹ کی منظوری میں حکومت کی حمایت یا مخالفت کا حتمی فیصلہ بجٹ اجلاس کے دنوں میں ان کی جماعت کی مرکزی کمیٹی کرے گی۔

دوسری طرف متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کچھ عرصہ پہلے تک حکومت سے نالاں دکھائی دے رہی تھی تاہم ان کی حکومت مخالفت میں قدرے کمی واقع ہوئی ہے۔

ایم کیو ایم پاکستان کے ترجمان اور رکن قومی اسمبلی سید امین الحق نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’ہم حکومت کے اتحادی ہیں اور کوئی ایسی حرکت نہیں کریں گے جس سے حکومت یا بجٹ کو نقصان پہنچے۔‘

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم پاکستان اور پی ٹی آئی حکومت کے درمیان نو نقاطی معاہدہ موجود ہے جس میں سندھ کے شہری علاقوں کی ترقی کی بات کی گئی ہے۔

سید امین الحق نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان سندھ کے شہری علاقوں کے لیے 162 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ کا اعلان کر چکے ہیں جبکہ حیدرآباد میں وفاقی یونیورسٹی کا سنگ بنیاد بھی رکھا جا چکا ہے۔ ’اب ہم نے دیکھنا ہے کہ ان باتوں پر عملی کام کتنی تیزی اور ایمانداری سے ہوتا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں ان کی حال ہی میں گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ملاقاتیں بھی ہوئی ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان حکومت کی ایک اہم اتحادی ہے اور تحریک انصاف کسی صورت اسے ناراض کرنے کا خطرہ مول نہیں لے گی۔

ایم کیو ایم پاکستان کے بیرسٹر فروغ نسیم وفاقی حکومت کی اہم وزارت قانون کے سربراہ ہیں اور انہی کی رہنمائی میں اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے خلاف کرپشن سے متعلق متنازع ریفرنسز تیار کیے گئے تھے۔

زیشان حیدر کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ہمیشہ سے اسی قسم کی سیاست کرتی رہی ہے۔ ’وہ پہلے اختلافات کو ہوا دیتے ہیں، حکومت کو چھوڑنے کی دھمکیاں دیتے ہیں اور اس طرح اپنے مطالبات پورے کروا لیتے ہیں۔‘

ان کے مطابق: ’میرے خیال میں ایم کیو ایم کی سیاست اس لحاظ سے کافی کامیاب ہے کہ وہ اپنے مطالبات بہرحال منوا لیتے ہیں۔‘

دوسری جانب وزیر اعظم کی اطلاعات و نشریات پرسپیشل اسسٹنٹ فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ حکومت سنو اور سناو کی حکمت عملی پر یقین رکھتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’حکومت کے اتحادیوں نے وزیر اعظم عمران خان کی قیادت پر اعتماد کیا ہے اور ہم انہیں مایوس نہیں کریں گے۔‘

بی این پی اور ایم کیو ایم کی حکومت سے اختلافات کی خبروں کی تردید کرتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوا بھی تو حکومت اپنے اتحادیوں کو منا لے گی۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت