کچی مِٹی کے گھروندوں کا سوندھا رومانس

اس کھلی اورصاف فضا میں ملک کے ہم ستر فیصد دیہاتیوں کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے مگر اس کتاب سے سردی اور گرمی سے بچاؤ سمیت کئی صفحات پھٹے ہوئے ہیں۔

 آپ اہل شہر کو دیہات کی صاف اور کھلی فضا بھی بڑی بھلی لگتی ہے۔ اس کھلی اور صاف فضا میں چند دن سانس لینے کا موقع مِل جائے تو لوڈ شیڈنگ آپ کا بھرکس نکال دے گی۔(ظفر سید)

 آپ اہل شہر کو دور دراز پسماندہ دیہات کے مٹی سے بنے کچے گھروندوں کی سوندھی خوشبو بڑی پسند ہے۔ لیکن کبھی اتفاق سے آپ کو چوبیس گھنٹے کسی مٹی کے گھروندے میں رہنا پڑے تو لگ پتہ جائے گا۔

فریج نہ اے سی، گرم پانی نہ باتھ روم، بجلی نہ گیس، ہیٹر نہ گرم بستر، صوفہ نہ بیڈ۔ فقط کھٹملوں سے لبریز ٹوٹی چارپائیاں، ان پر پھٹے پرانے بستراور کچی مٹی کی سوندھی خوشبو۔۔۔۔ رہے نام اللہ کا۔

مٹی کے ان دیدہ زیب گھروں میں گائیں، بکریاں اور مرغیاں بھی مکینوں کے ساتھ برابری کی سطح پر قیام پذیر ہوتی ہیں۔ ان کی سحرانگیز خوشبو بھی مٹی کی سوندھی خوشبو میں شامل ہو کر اسے دو آتشہ کر دیتی ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

شہروں میں باصلاحیت اور ذہین مصور خواتین دیہی زندگی کے دلکش پوٹریٹس بنا کر ان کی عالیشان آرٹ گیلریوں میں نمائش کرتی ہیں۔ لش پش کرتی نیلے، پیلے، اودے، سبز، سرخ جدید سُوٹوں میں ملبوس باذوق شہری خواتین دیہی زندگی کے حسن کو اجاگر کرنے والے ان فن پاروں کو بڑی دلچسپی سے دیکھتی ہیں۔

ان فن پاروں میں دیہاتی عورتیں سرسبز لہلہاتے کھیتوں کے درمیان ناگن کی طرح بل کھاتی پگڈ نڈیوں پر پانی کے دو، دو گھڑے سروں پر اور ایک ایک بغل میں اٹھا کر جاتی بڑی پرکشش لگتی ہیں۔ تاہم ان فن پاروں کی تخلیق کاروں اور انہیں دلچسپی سے دیکھنے والیوں کو اگر ان سرسبز کھیتوں کے درمیان بل کھاتی پکڈ نڈیوں پرپانی سے بھرے تین گھڑے اٹھا کر دو قدم بھی چلنا پڑے تو ان کے ہوش ٹھکانے آ جائیں۔ کئی تصویروں میں کسان کھیتوں اورکھلیانوں میں فصل کا سونا اُگاتے نظر آتے ہیں۔ اگر ایسے دلفریب فوٹو بنانے والے فوٹوگرافروں کو یہ ’سونا اگانا‘ پڑے تو ان کی آنکھیں اُبل پڑیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 آپ اہل شہر کو دیہات کی صاف اور کھلی فضا بھی بڑی بھلی لگتی ہے۔ اس کھلی اور صاف فضا میں چند دن سانس لینے کا موقع مِل جائے تو لوڈ شیڈنگ آپ کا بھرکس نکال دے گی۔ ان کھلی فضاؤں میں آئسکو اور پیپکو وغیرہ اس جانفشانی سے اپنی گراں قدر خدمات انجام دیتے ہیں کہ آپ کا لیپ ٹاپ چلے گا، نہ سمارٹ فون چارج ہو گا۔

ہم دیہاتیوں سے تو خیر کچھ بعید نہیں کہ دیر سویر سے مجبوراً سفر کرنا پڑے تو ترنگ میں آ کر سواری کے لیے اپنا ٹریکٹر ہی نکال لیں۔ آپ کو ہماری ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر ایسی آرام دہ گاڑی میں سفر کرنا پڑے تو کمر ایسی دہری ہو گی کہ اپنے وٹس ایپ کے ذریعے دنیا سے رابطہ منقطع ہو جانے کا غم بھی بھول جائے گا۔

ہمارا ایک کزن موٹرسائیکل پر ہم سے ملنے آیا۔ رستے میں اسے تیز بارش اور اولوں نے آ لیا۔ ہمارے گھر تک پہنچتے پہنچتے اس کا حشر نشر ہو گیا۔ اس نے سواری سے اترتے ہوئے پہلا جملہ یہ کہا، ’جو لوگ ٹریکٹر اور موٹرسائیکل کو گاڑی کہتے ہیں، جی چاہتا ہے کہ ایک جھانپڑ دوں ان کے منہ پر!‘ بہت ممکن ہے کہ یہاں کے کسی ایسے خوشگوار سفر کے بعد آپ کے خیالات بھی کچھ ایسے ہی ہو جائیں۔

سردیوں کی بارش کے متعلق ہم نے جناب عرفان صدیقی کی دل کے تار چھیڑنے والی ایک تحریر پڑھی ہے۔ اس کا ایک اقتباس یوں ہے: ’سردیوں کی نہایت مدھم رفتار سے رم جھم بارش، انسان اندر ہی اندر سکڑتا چلا جاتا ہے، گرم لحاف میں لپٹے پلٹے پرانے زخموں کے ٹانکے کھلنے لگتے ہیں، یادوں کے عطردان سے خوشبو کے مرغولے اٹھتے ہیں اورچارسُو پھیلتے چلے جاتے ہیں۔ باہر برستی بارش کھڑکی کا کائی زدہ دریچہ کھول کر اندر آ جاتی ہے اور دل کے دالان میں بھی رم جھم شروع ہو جاتی ہے۔‘

دسمبر، جنوری کی رم جھم میں ہم دیہاتیوں کے جذبات بھی کچھ ایسے ہی رومینٹک ہونے کی کوشش کرتے ہیں مگر مصیبت یہ ہے کہ ایسے دلگداز ماحول میں ایک تو یہاں سردی سے بچاؤ کا کوئی بندوبست نہیں ہوتا، دوسرے یہ کہ اکثر ایسے رومینٹک ماحول میں رات گئے سوندھی خوشبو والی کچی مٹی کے گھروں کی چھتیں ٹپکنے لگتی ہیں۔ کبھی وہ ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے ہم پر گِر بھی جاتی ہیں اور سارے رومینٹک ماحول کا مزا کرکرا ہو جاتا ہے۔

اس بار جنوری ایسا یخ بستہ موسم لایا ہے کہ صابر مصلی یاد آ گیا۔ کڑاکے سردیوں کی لگاتار جھڑی میں گیلے کپڑوں کے ساتھ آگ کے الاؤ کے پاس آ بیٹھا تو اپنے برف جیسے ہاتھ تاپتے ہوئے حسرت سے بولا ’یا خدایا، اگلے جہان بھی آگ ہی دینا۔‘

اس کھلی اور صاف فضا میں ملک کے ہم ستر فیصد دیہاتیوں کی زندگی کھلی کتاب کی مانند ہے مگر اس کتاب سے سردی اور گرمی سے بچاؤ سمیت کئی صفحات پھٹے ہوئے ہیں۔ سردیوں میں یہاں تا حدنظر’ کُولنگ سسٹم‘ نظر آتا ہے۔ آپ اہل شہر کے نزدیک کھلی آب و ہوا صحت کے لیے اچھی چیز ہے مگر ہمارے خیال میں اسے اتنا کھلا ڈلا بھی نہیں ہونا چاہیے کہ گرمیوں میں ’سردی پروف‘ اورسردیوں میں ’گرمی پروف‘ ہو جائے۔ مراد یہ ہے کہ بجلی و گیس اور زندگی کی دیگر سہولتوں پر تھوڑا بہت حق ہم اہل دیہات کا بھی ہونا چاہیے۔ اب تک تو ہمارے پاس موسم کی سختیاں سہنے کے صدیوں پرانے نسخے ہی کار آمد ہیں کہ ہم گرمیوں میں ’پانی پرست‘ اور سردیوں میں’ آتش پرست‘ ہو جاتے ہیں۔

اگر یقین نہ آئے تو تشریف لائیے اور دیکھیے کہ ہم جسم وجاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے کیسے کوشاں ہیں؟ گرمیوں میں باہر بھی آگ اور کمرے بھی تنور اور جاڑے میں باہر بھی ہڈی چِیر ٹھنڈ اورکمرے بھی ریفریجریٹر۔

تُو ہے اک شہر، تجھے کیا معلوم
کیسا ہوتا ہے مضافات کا دُکھ ؟

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ