پاکستان بھارت کشیدگی میں اسرائیل کا بہت بڑا ہاتھ ہے

اسرائیل بھارت اور پاکستان تینوں کے پاس جوہری ہتھیار ہیں اس لیے فلسطین اور کشمیر کے مسائل کو آپس میں الجھنا نہیں چاہیے۔

اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو  اتل ابیب ایئر پورٹ پر بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال کر رہے ہیں۔ فائل فوٹو۔ رائٹرز

جب میں نے پہلی دفعہ یہ خبر پڑھی تو مجھے ایسا لگا جیسے غزہ یا شام میں اسرائیلی فضائیہ نے حملہ کر دیا ہے۔ 'دہشت گرد کیمپ پر فضائی حملے'، یہ وہ پہلے الفاظ تھے جو اس خبر میں سنائی دئیے۔

ہمیں بتایا گیا کہ ان کا 'کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر' تباہ کردیا گیا ہے، بہت سے دہشت گرد مارے گئےہیں، اور فوج نے اس عمل کو اپنے دستوں پر حملے کا ردعمل قرار دیا ہے۔

جہادیوں کی ایک پناہ گاہ تباہ کر دئیے جانے کی خبر کے بعد میں نے سنا کہ یہ علاقہ بالا کوٹ کا ہے۔ تب مجھے اندازہ ہوا کہ یہ شام، لبنان یا غزہ کی بات نہیں ہو رہی بلکہ یہ تو پاکستان میں ہو رہا ہے۔ مجھے بڑا عجیب لگا۔ اسرائیل اور بھارت کی حرکتیں بالکل ایک جیسی کیوں لگ رہی ہیں؟

یہ خیال بہرحال صرف اس لیے رد نہیں کیا جا سکتا کہ اسرائیلی اور بھارتی وزارت ہائے دفاع کےدرمیان پچیس سو میل کا فاصلہ موجود ہے۔ ایک وجہ مزید بھی موجود ہے جس کی وجہ سے ہمیں اس طرح کے حملے ایک جیسے دکھائی دے سکتے ہیں۔

پچھلے کئی مہینوں سے اسرائیل بہت محنت اور باریکی کے ساتھ اپنے تعلقات بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے ساتھ استوار کر رہا ہے۔ یہ سب نہایت خاموشی کے ساتھ ہو رہا ہے۔ مسلمانوں کے خلاف اس تازہ اتحاد کی سرکاری طور پرکوئی حیثیت نہیں ہے۔ نہ ہی اسے لوگوں کےسامنے لایا گیا ہے۔ سیاسی طور پر ہم اسے یوں خطرناک کہہ سکتے ہیں کہ اس کے تحت بھارت اسرائیل کے تازہ ترین ہتھیاروں کا خریداربھی بن چکا ہے۔

سوچا جائے تو بھارتی پریس کا زوروشور سے کیا گیا یہ دعویٰ بھی کوئی اتفاق نہیں تھا کہ اسرائیل کا بنایا گیا سمارٹ بم 'رافیل سپائس 2000 ' پاکستان میں جیش محمد کا ٹھکانہ تباہ کرنے کے لیے بھارتی فضائیہ کی طرف سے استعمال کیا گیا ہے۔

ماضی میں کیے گئے ایسے بہت سے غلط اسرائیلی دعووں کی طرح مہم جوئی کا یہ حالیہ دعوی بھی بھارتی فوجی کامیابیوں کی لن ترانی کے علاوہ کوئی خاص نئی حرکت نہیں ہے۔ اسرائیل میں بنائے گئے اور اسرائیل سے ہی بھیجے گئے اسلحے کے ذریعے 300 یا 400 جہادیوں کو مار دینے والی اس خبر میں بالکل ایسا ہی لگ رہا تھا جیسے انہوں نے کہیں خشک چٹانوں یا درختوں کو نشانہ بنایا ہے۔

لیکن 14 فروری کو جیش محمد کا ایک حملے کے دوران کشمیر میں 40 بھارتی فوجیوں کو مار دینے کا دعوی بہرحال کچھ غلط نہیں تھا۔ اس ہفتے ایک بھارتی جہاز گرائے جانے والا ان کا دعویٰ بھی کسی طور غلط نہیں تھا۔

2017 میں بھارت اسرائیلی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار تھا۔ اسرائیل سے بھارت نے اپنی فضائیہ کے لیے 53 کروڑ پاؤنڈز کے عوض ریڈار اور ہوا سے زمین پر ہدف کو نشانہ والے میزائل خریدے۔ اس میں سے زیادہ تر سامان کے ابتدائی تجربے ان حملوں کے درمیان کیے جاتے تھے جو اسرائیل آئے دن فلسطین کے خلاف کر رہا ہوتا تھا، یا پھر جب شام میں اپنے اہداف کو نشانہ بنا رہا ہوتا تھا۔

میانمار جہاں روہنگیا مسلمانوں پر نسل کش ظلم و ستم جاری ہے، وہاں بھی اسرائیل اپنے ٹینک، ہتھیار اور کشتیاں بیچنے کی وضاحت بار بار کرتا رہتا ہے۔ ایک طرف مغربی اقوام میانمارکی فوجی حکومت پر اس لیے مختلف پابندیاں لگا رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنی اقلیتوں کو نیست ونابود کرنے پر تلے ہیں جب کہ دوسری طرف اسرائیل کا بھارت سے ہتھیاروں کی فروخت کا معاملہ بالکل قانونی کہلا رہا ہوتا ہے اور وہ بھرپور طریقے سےاسے مشتہر بھی کر رہے ہوتے ہیں۔

اسرائیل بھارتی فوجی کمانڈو دستوں کے ساتھ مشترکہ مشقوں کی ویڈیوز بھی جاری کرچکا ہے۔ ان فوجی دستوں میں زیادہ تر ایسے بھارتی کمانڈو ہوتے ہیں جو غزہ میں انسانی آبادی والے علاقوں کو میدان جنگ بنا کر اپنی عملی تربیت حاصل کرتے ہیں۔

بھارت کے کم از کم سولہ 'گرود' کمانڈو ایک وقت میں نیواتم اور پلماچم کے ہوائی اڈوں پر تعینات رہے تھے۔ یہ وہ کمانڈو تھے جو بھارت کے 45 رکنی فوجی دستے کے ساتھ تربیت پر اسرائیل آئے تھے۔ 

’بھارت اور اسرائیل دہشت گرد حملوں کا دکھ بہت اچھے طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں ممبئی پر کیا گیا دہشت گرد حملہ یاد ہے۔ ہم اس نقصان پر تلملائے ہوئے ہیں اور ہم دوبارہ بھی حملہ کریں گے۔ ہم کبھی ہار نہیں مانیں گے۔‘ یہ بیان اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نتن یاہو نے 2008 میں ہونے والےممبئی بم دھماکوں کو یاد کرتے ہوئے تب دیا تھا جب پچھلے برس وہ اپنے پہلے سرکاری دورے پر بھارت گئے تھے۔

تاہم کچھ بھارتی مبصروں نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ قوم پرستی اور دائیں ہاتھ کی سیاست ہی مودی - نتین یاہو تعلقات کا مرکزی نقطہ نہیں ہونا چاہیے۔ خاص طور پر بھارت اور اسرائیلی تعلقات اس لیے بھی اس نظرئیے پہ مرکوز نہیں ہونے چاہئیں کیونکہ یہ دونوں ملک ایک وقت میں تاج برطانیہ کے زیر نگین بھی رہ چکے ہیں۔

اسرائیلی اخبار ہاریٹز سے تعلق رکھنے والی شیری ملہوترا کے مطابق بھارت دنیا کا مسلم آبادی والا تیسرا بڑا ملک ہے۔ وہاں مسلمانوں کی آبادی 18 کروڑ لوگوں پر مشتمل ہے جو انڈونیشیا اور پاکستان کے بعد اسلام سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی تیسری سب سے بڑی آبادی ہے۔ ان کے مطابق لائیکڈ (اسرائیل کی دائیں بازو والی جماعت)اور حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے یہ مشترکہ منصوبے ہی اسرائیل-بھارت تعلقات کا نقطہ اتصال ہیں۔

ہندو قوم پرست اپنا ایک سدابہار موقف تیار کرچکے ہیں جو ہمیشہ ہندوؤں کو تاریخی طور پر مسلمانوں کے ہاتھ ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہوئے دکھاتا ہے۔ یہ نظریہ ان ہندوؤں کے لیے بھی خوش کن ہوتا ہے جنھیں 1947 کے فسادات یاد ہیں۔ یہ موقف پاکستان کے ساتھ تعلقات مسلسل خراب رکھنے کے لیے بھی بہترین ثابت ہوتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ جیسے ملہوترا نے ایک مرتبہ ہارٹیز میں تحریر کیا تھا، اسرائیل کے سب سے بڑے فین وہ ہندو بریگیڈ ہے جو انٹرنٹ پر موجود ہوتی ہے۔ وہ اسرائیل سے اس لیے محبت کرتے ہیں کیونکہ وہ ہر جگہ مسلمانوں سے لڑتا ہے اور فلسطین میں ان پر ظلم و ستم کرتا ہے۔

شیری ملہوترا نے کارلیٹن یونیورسٹی کے پروفیسر وویک دہیجیا کے اس بیان کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے مطابق بھارت اسرائیل اور امریکہ کو سہ اتحادی ممالک کی حیثیت سے رہنا چاہیے۔ اور اس لیے رہنا چاہیے کیوں کہ ان تینوں نے اسلامی حریت پسندی کے ہاتھوں نقصان اٹھایا ہے۔

اسلامی شدت پسندی سے متاثر ہونے کے دعوؤں کی حقیقت یہ ہے کہ 2016 کے آخر تک صرف 23 لوگوں نے بھارت سے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ بیلجیئم سے تقریبا 500 شدت پسند عرب دنیا میں داعش کے ساتھ شامل ہونے کے لیے آچکے تھے۔

بھارت اسرائیلی تعلقات کے بارے میں شیری ملہوترا کے دلائل خیالی سے زیادہ مبنی بر حقیقت دکھائی دیتے ہیں۔

لیکن یہ دیکھنا مشکل ہے کہ صیہونی قوم پرستی اور بھارتی قوم پرستی کب تک آپس میں مدغم نہیں ہوں گے؟ جبکہ اسرائیل بھارت کو بہت سے ہتھیار بیچ رہا ہے اور اسرائیل-بھارت سفارتی تعلقات 1992 سے بہت عمدہ طور پہ برقرار ہیں۔ خاص طور پہ جب وہ اسرائیلی ہتھیار پاکستان میں اسلامی شدت پسندوں کے خلاف استعمال بھی ہو چکے ہیں۔

مسلمان شدت پسندوں کے خلاف جنگ کا معاہدہ دونوں مملکتوں کے لیے فطری لگتا ہے۔  خاص طور پر ایسی صورتحال میں جب ان دونوں کو ہی مسلسل اپنے مسلمان ہمسایوں سے خطرے کا سامنا ہے۔ نیز ہر دو ملکوں کی جدوجہد اپنے علاقے پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہی چل رہی ہے۔

اسرائیل بھارت اور پاکستان تینوں کے پاس ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ یہ وہ وجہ ہے جس کے تحت فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں کو آپس میں الجھنا نہیں چاہیے۔ خاص طور پر ایسی کوئی صورتحال پیدا نہیں ہونی چاہیے جس کے بعد بھارت کے 18 کروڑ مسلمان اکیلے رہ جائیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ