خان صاحب کے لیے مفت مشورہ

بہت سا وقت گزر گیا ہے لیکن ابھی کافی وقت باقی ہے۔ بہت کچھ اب بھی ٹھیک ہو سکتا ہے، پاکستان اب بھی بدل سکتا ہے اگر خان صاحب ہمارے مفت مشورے پر غور کر لیں۔

 ہم تو سکول کے زمانے سے کرکٹ لیجنڈ عمران خان کے فین ہیں مگر وہ طبقہ اور وہ نوجوان جو سیاسی مقلد ہیں، وہ بھی ملک کی معاشی صورتحال پر انتہائی پریشان ہیں (اے ایف پی)

آج کے کالم کا آغاز خان صاحب کے کچھ کرکٹ اور کچھ سیاسی اقوالِ زریں سے:

 کرکٹ کھیلنے کے اپنے 21 سالوں کے دوران مجھے کبھی بھی اپروچ کرنے کی ہمت کسی میں نہیں ہوئی اور نہ ہی مجھے کبھی رشوت دی جا سکی۔

 آج میں جیتوں یا ہاروں لیکن مجھے فخر ہے جس طرح اس ٹورنامنٹ میں میری ٹیم کھیلی ہے۔

 اپنا سب کچھ اپنی گیم میں لگا دیں اور جتنی جارحانہ فاسٹ بولنگ کروائیں اتنا اچھا ہے۔

 عوام نہیں چاہتی تھی کہ پیپلز پارٹی دوبارہ اقتدار میں آئے اسی لیے انھیں شاید نواز شریف متبادل کے طور پر نظر آئے ہم نہیں، کیونکہ سب جانتے تھے کہ تحریک انصاف ابھی تیار نہیں ہے۔

 جمہوریت صرف اس صورت آ سکتی ہے جب سیاست میں پیسہ استعمال نہ کیا جائے۔

 مجھے کوئی ضرورت نہیں کہ میں پیسہ بنانے کے لیے سیاست کا استعمال کروں۔

 جو ٹیم پریشر برداشت کر لیتی ہے جیت اس کا مقدر بن جاتی ہے۔

 مجھے ہمیشہ اپنے آپ پر اعتماد تھا، یقین تھا۔ میں نے کبھی خود کو معمولی پلیئر نہیں سمجھا۔ میں ہمیشہ ایک بہترین کھلاڑی بننا چاہتا تھا۔ یہی میرا خواب تھا۔

 ہمیشہ وہی ٹیم جیتتی ہے جو اپنا ہوم ورک مکمل کرے، اپنے مخالف کو سمجھے اور جب کھیلنے کا وقت آئے تو بہترین کھیل پیش کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ایک ملک جو قرضوں پر چلتا ہے، اس سے بہتر موت ہے۔ قرض آپ کو اپنے وسائل کے بہترین استعمال اور خود مختاری سے محروم کرتے ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے استعماری نظام آپ کو عزت ونفس سے محروم کر دیتا ہے۔

 میرے لیے سب سے اہم ہے کہ میں اپنے ملک کے کروڑوں غریب عوام کے لیے کچھ کر سکوں۔

عمران خان کی یہ باتیں آپ کےلیے نئی نہیں ہیں۔ کئی بار آپ نے یہی اور ایسی ہی باتیں سن رکھی ہوں گی اور خان صاحب کے چاہنے والو ں اور متوالوں کوتو یہ ازبر ہوں گی ،تو پھر آج ان کے تذکرے سے کالم کا آغاز کیوں؟

پہلے میں آپ کو ایک چھوٹا سا واقعہ سناتی ہوں۔ 1994 کی بات ہے سکول میں پڑھنے والے ننھے سے بچے تھے۔ ایک دن پتہ چلا کہ کرکٹر عمران خان کسی چندے کی مہم کے لیے ہمارے سکول کانونٹ ملتان کا دورہ کریں گے۔

چونکہ چھوٹے تھے اس لیے یہ تو پتہ نہیں تھا کہ عمران خان شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کے لیے فنڈز اکٹھے کر رہے ہیں لیکن صرف دو سال پہلے ہی کرکٹ ورلڈ کپ جیت کر عمران خان جس طرح کے سٹار بن چکے تھے، ان کی اپنے سکول میں ایک جھلک دیکھ لینے کی خوشی ، جنون اور بے چینی ہی کچھ الگ تھی۔

 اور دو سال پہلے جس طرح گھر والوں کو ورلڈ کپ فائنل کے دوران بلیک اینڈ وائٹ ڈبہ نما ٹی وی پر عمران خان کے لیے جیت کی دعائیں کرتے دیکھا تھا، نانی اماں تو باقاعدہ مصلیٰ بچھا کر جیت کی دعائیں کر رہی تھیں۔

 گھر کے مردوں نے سروں پر ٹوپیاں چڑھا کر ہاتھ بلند کر لیے تھے اور جب پاکستان نے ورلڈ کپ جیتا، اس کی خوشی اور مٹھائیاں اور وہ جوش وہ جذبہ۔ ورلڈ کپ کا تھیم سانگ ’دی ورلڈ از کمنگ ڈاؤن‘ اور اس پر عمران خان کا چمکتے دمکتے مسکراتے چہرے کے ساتھ ٹرافی بلند کرنا، یہ سب کسی کرشماتی، طلسماتی منظر کی طرح ایک بچے کی آنکھوں میں تازہ تھے اور ایسے میں جب اسی عمران خان کو آنکھوں کے سامنے دیکھنے کا موقع ملے تو کیسی خوش نصیبی تصور کی ہو گی ایک ننھے ذہن نے۔

سو ہفتہ پہلے سے ہی ہم نے والدہ سے رقم پکڑ لی جو شاید پانچ یا دس روپے تھے، جو غالباً یہ سوچ کر اپنے بستے میں ایک کتاب میں دبا لیے کہ جب عمران خان سکول آئیں گے تو اپنے ہاتھ سے انھیں شوکت خانم ہسپتال کے فنڈ ے لیے دیں گے۔

بڑی بے چینی میں انتظار کے دن کاٹے اور آخر کار وہ دن آ ہی گیا جب عمران خان ہمارے سکول کے دورے پر آئے۔ ان کا دورہ بمشکل بیس، پچیس منٹ کا رہا ہو گا جس میں جو مجھے یاد رہ گیا وہ ان کا سکول ہال میں تقریر کرنا اور واپسی پر سکول کی طالبات کا آٹو گراف کے لیے ان پر ہلہ بول دینا تھا۔

 ایک ہاتھ میں آٹو گراف بک پکڑے اور دوسرے میں فنڈ کی رقم دبائے بہت سارے دھکے کھاتے ہم عمران خان تک پہنچنے میں کامیاب تو ہو گئے مگر نہ آٹو گراف حاصل کر سکے نہ فنڈ کی اپنی معصوم رقم ان کے ہاتھ میں دے سکے جو کب سے مٹھی میں بھینچے جانے کے نتیجے میں پسینے میں شرابور ہو چکی تھی۔

بچپنے کے دو اعزاز البتہ حاصل کر لیے۔ سٹار عمران خان کو قریب سے دیکھنے اور سننے کا اور ان کے دورے سے واپسی پر آٹو گراف کی ہلڑ بازی میں جس قلم سے عمران خان آٹو گراف دے رہے تھے وہ گرا اور چھینا چھپٹی میں شومئی قسمت ہمارے ہاتھ لگا۔

 آج تک وہ قلم ہمارے پاس موجود ہے۔ وقت کا پہیا تیزی سے گھوما۔ ہم بڑے ہوتے گئے۔ عمران خان ہم سے بھی بڑے ہوتے گئے۔ عمر میں بھی اور پیشہ ورانہ اور سیاسی قد کاٹھ میں بھی۔

ایک طرف جہاں عمران خان کرکٹ سے نکل کر سیاست میں قدم جما رہے تھے اور خود کو آہستہ آہستہ منوا رہے تھے، وہیں ہم نے صحافت کی دنیا میں قدم رکھا ہی تھا۔

ایک طویل عرصے تک بلکہ سچ کہیں تو آج تک ایک کرکٹ لیجنڈ ہونے کے ناطے عمران خان کی فین ہوں لیکن پیشہ چونکہ صحافت ہے اور عمران خان سیاست دان ہیں اور اب وزیرِ اعظم ہیں تو اپنی پیشہ ورانہ قواعد و ضوابط کی پابند ہوں اور بطور صحافی ہی سیاست دان اور وزیرِ اعظم عمران خان کے اقدامات کا پوسٹ مارٹم کرتی ہوں۔

ہر وہ سیاست دان جو اقتدار میں آیا ہے، اس کی طرح عمران خان کو بھی گذشتہ ڈیڑھ سال سے سامنا ہے کہ لوگ ان کے اقتدار میں آنے سے پہلے کے بیانات سے مسلسل موازنہ کر رہے ہیں، جو بسا اوقات الجھن کا باعث بھی بنتا ہے۔

 مجھے تسلیم ہے کہ عمران خان کی نیت مخلص ہے، بالکل ویسے ہی جیسے کرکٹ میں پاکستان کا نام اونچا کرنے کی تھی، بالکل ویسے ہی جیسے ہسپتال کی تعمیر میں غریب عوام کی زندگی محفوظ کرنے کے لیے تھی لیکن پھر سیاست میں آ کر کیا ہو گیا؟

 اقتدار حاصل کر کے ایسا کیا ہو گیا کہ آج ہر طرف دہائیاں ہیں؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت بنائے ڈیڑھ سال بعد بھی عوام پریشان ہیں بلکہ زیادہ پریشان ہیں؟

 کیا وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم ہر ہفتے کئی کئی بار اجلاس پر اجلاس بلاتے ہیں لیکن ریلیف کے الفاظ کے کوئی عملی ثمرات عوام تک پہنچ نہیں پا رہے؟ کیا وجہ ہے کہ اسد عمر کے بعد شبر زیدی بھی چل نہیں پائے؟ کیا وجہ ہے کہ حکومت کے بہترین معاشی دماغ حفیظ شیخ اور رضا باقر کہہ رہے ہیں کہ اس سال بھی معاشی ترقی کوئی خاص چمتکار نہیں دکھائے گی بلکہ مہنگائی اس سال مزید بڑھے گی؟

 کیا وجہ ہے کہ وزیرِ اعظم تو عوام کو خوش گمانی کا یقین دلاتے ہیں کہ 2020 ترقی اور خوشحالی کا سال ہے لیکن ان کی معاشی ٹیم کے اعداد و شمار عوام کا دل دہلائے دیتے ہیں؟

 ہم تو سکول کے زمانے سے کرکٹ لیجنڈ عمران خان کے فین ہیں مگر وہ طبقہ اور وہ نوجوان جو سیاسی مقلد ہیں، وہ بھی ملک کی معاشی صورتحال پر انتہائی پریشان ہیں۔ ابھی تحریکِ انصاف حکومت کو ایک سال پانچ ماہ بیتے ہیں۔ سات ماہ بعد دو سال بھی مکمل ہو جائیں گے اور حکومت کے اپنے اعداد و شمار دسمبر 2020 تک کوئی اچھی نوید نہیں سنا رہے جب حکومت اپنے تیسرے سال میں ہو گی۔

اگست 2023 میں خان حکومت اپنے پانچ سال کی تکمیل کرے گی (گر آسمانی و نورانی مدد شاملِ حال رہی) ۔حکومتوں کا آخری سال ویسے بھی اگلے الیکشن کی تیاری کا ہوتا ہے، لہٰذا کارکردگی دکھانے کے لیے تحریکِ انصاف حکومت کے پاس آج سے لے کر اگست 2022 تک محض دو سال چھ ماہ کا عرصہ ہی موجود ہے۔

 وقت کم ہے اور مقابلہ انتہائی سخت۔ ایسے میں ہمارا صرف ایک مخلصانہ مشورہ ہے وزیرِ اعظم عمران خان کے لیے۔ اپنی انتہائی مصروف ترین مصروفیات میں سے چند گھنٹے نکالیں اور وزیرِ اعظم بننے سے پہلے کے اپنے بیانات اور کرکٹ کے زمانے کے بیانات کا مطالعہ کریں اور جائزہ لیں۔

 خان صاحب کو اندازہ ہو جائے گا کہ کمی یا کوتاہی کہاں ہو رہی ہے۔ وزیرِ اعظم بننے سے پہلے جس طرح کا وزیرِ اعظم بننے کا وعدہ خان صاحب نے عوام سے کیا تھا ، ہو بہو وہی وزیرِ اعظم عوام کو آج بھی چاہیے۔ کرکٹ کے زمانے کا جو کپتان ہارا ہوا میچ اپنی بہترین ٹیم کے ذریعے پاکستان کو جتوا کر دیا کرتا تھا، ہو بہو وہی کپتان آج پاکستان کو چاہیے۔

بہت سا وقت گزر گیا ہے لیکن کافی وقت ابھی باقی ہے۔ بہت کچھ اب بھی ٹھیک ہو سکتا ہے۔ پاکستان اب بھی بدل سکتا ہے اگر خان صاحب ہمارے مفت مشورے پر غور کر لیں، وگر نہ مشیر تو وزیر اعظم صاحب کے گرد اور بھی بہت ہیں اور حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔

 خان صاحب 2022 تک اگر واقعی آپ نے پاکستان بدل دیا، عوام کی حالت بدل دی، ملک کی سمت ٹھیک کر دی تو آج کے مفت مشورے کے ساتھ ایک زبردستی کی فرمائش بھی کہ 1994 کے آپ کے ہاتھ سے گرے اسی قلم سے آپ کا آٹو گراف لینے ضرور حاضر ہوں گی کہ پھر آپ میرے سمیت ہر پاکستانی کے سپر سٹار ہوں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر