ناصر جمشید کی سزا سے کچھ بدلے گا؟ 

پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے چند روز قبل ناصر جمشید کی سزا نے کھلاڑیوں میں خوف بٹھا دیا ہے اور صحافیوں سے دور بھاگنے والے کھلاڑی اب اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کمانے والے آرگنائزرز پر خوف کون طاری کرے گا؟

 33 سالہ ناصر جمشید جو برطانوی شہریت اختیار کرچکے ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

کرکٹ اور فکسنگ کا چولی دامن کاساتھ ہے جتنا فکسنگ نے کرکٹ کو پراگندہ کیا ہے اتنا ہی کرکٹ نے فکسنگ کو مالامال کیا ہے۔

مالی فوائد کے لیے میچ فکسنگ نوے کی دہائی میں شروع ہوئی اور اس نے آناً فاناً دنیا بھر کی کرکٹ کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔ اچھی بھلی جیتتی ہوئی ٹیمیں جب اچانک ہارنے لگیں تو لوگوں کا ماتھا ٹھنکا اور سات پردوں میں ہونے والے معاہدے منظر عام پر آنے لگے۔

کچھ ضمیر فروشوں نے اگر کھیل کا سودا کیا تو کچھ باضمیر کھلاڑی اپنی صفوں میں ایسے عناصر کی نشاندہی کرنے لگے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ میچ فکسنگ تو ختم ہوگئی مگر فٹ بال کی طرز پر سپاٹ فکسنگ یعنی کھیل کی مختلف سطحوں پر جوا کھیلا جانے لگا کہ کون کس طرح آؤٹ ہوگا یا کتنی ڈاٹ گیندیں کھیلے گا کس گیند کو روکے گا اور کس کو چھوڑے گا۔

یہ ایسی فکسنگ تھی جس کو پکڑنا انتہائی مشکل اور صبر آزما ہوتا ہے تاہم فکسنگ کی لت میں مبتلا کھلاڑی ہمیشہ اپنی لاپروائی اور معاملات کی ستر پوشی مناسب طریقے سے نہ کرنے کے باعث پکڑے جاتے ہیں۔

ماضی میں ایسے کھلاڑی فکسنگ کے باعث پابندی کا شکار ہوئے جن کا حال اور مستقبل بے حد تابناک تھا مگر لالچ نے سب کچھ چھین لیا۔ 

کچھ کے ہاتھ تو اس بہتی گنگا میں دھونے کے باوجود تر بھی نہ ہوسکے اور کیرئیر کی تباہی کے ساتھ مالی مشکلات کا شکار ہوگئے۔

بنگلہ دیش کے ایک انتہائی باصلاحیت کھلاڑی اور پاکستان کے ایک معروف اسپنر تو ہر گئے دن اپنی بربادی پر بین کرتے رہتے ہیں۔ ماضی کے ایک بڑے پاکستانی بلے باز اس قدر کسمپرسی میں ہیں کہ لاہور کی سڑکوں پر ایک سگریٹ کی تلاش میں پھرتے رہتے ہیں۔

اسپاٹ فکسنگ کے ایک کیس میں تازہ ترین سزا مانچسٹر کراؤن کورٹ نے پاکستان کے ناصر جمشید کو سنائی ہے۔ ناصر جمشید کو بنگلہ دیش پریمیر لیگ کے ایک میچ میں فکسنگ پر اکسانے اور فکسنگ نیٹ ورک کے محرک بننے پر سترہ ماہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ ان کے ساتھ دو اور برطانوی شہریوں کو بھی ساڑھے تین سال اور ڈھائی سال کی سزا ملی ہے۔ ان دونوں اشخاص نے کئی کھلاڑیوں کو اپنے نیٹ ورک میں لیا ہوا تھا اور برطانوی تحقیقاتی ادارے کے سامنے اعتراف کیا ہے کہ وہ فکسنگ کا نظام چلارہے تھے۔ 

ناصر جمشید پر پاکستان کرکٹ بورڈ پہلے ہی دس سال کی پابندی لگا چکا ہے جب کہ ان کے ساتھ ملوث شرجیل خان اور خالد لطیف پر پانچ سال کی پابندی لگائی گئی ہے۔ شرجیل خان اور خالد لطیف پاکستان سپر لیگ میں فکسنگ میں ملوث تھے اور ملنے والے شواہد سے ثابت ہوا تھا کہ وہ ناصر جمشید کے ذریعہ فکسنگ نیٹ ورک کا حصہ ہیں تاہم شرجیل خان کے اعتراف جرم کے بعد بورڈ کو ان پر رحم آیا اور ایک بحالی کے نظام سے گزرتے ہوئے ان کی سزا ڈھائی سال پر محیط کردی گئی۔ البتہ خالد لطیف کی سزا نہ کم ہوسکی اور وہ تاریکیوں میں کھوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 33 سالہ ناصر جمشید جو برطانوی شہریت اختیار کرچکے ہیں ایک باصلاحیت کرکٹر تھے اور محض پندرہ سال کی عمر میں فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کر چکے تھے۔ وہ پاکستان کی طرف سے ساٹھ انٹرنیشنل میچ کھیل چکے ہیں اور بھارت کے خلاف دو سنچریاں بھی بنا چکے ہیں۔ اپنے عروج کے وقت میں ٹیم کے اہم رکن تھے۔

جارحانہ بیٹنگ کے باعث ٹی ٹوئنٹی لیگز میں بھی ان کی ڈیمانڈ تھی لیکن وہ لالچ میں آکر سب گنوا بیٹھے۔

میچ فکسنگ کی لعنت نے نہ صرف ناصر کا کیرئیر ختم کیا بلکہ اب عدالت کے فیصلہ کے بعد انھیں سترہ ماہ کی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔

میچ فکسنگ کے نتیجے میں ملنے والی دولت نے کھلاڑیوں کی آنکھیں تو چکا چوند کردی ہیں لیکن کھیل اور کھیل کے شائقین کو دھوکہ دینے کے جرم میں جب پکڑے جاتے ہیں تو پھر کوئی ان کا ساتھ دینے والا نہیں ہوتا۔

یہ بھی ایک ستم ظریفی ہے کہ کچھ ایسے بھی فکسر ہیں جو اپنے وقت میں فکسنگ کرتے رہے لیکن قانون میں جھول ہونے کے باعث پکڑے نہ جاسکے اور ان کی نشاندہی کرنے والے باسط علی کا کیرئیر ختم ہوگیا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ فکسنگ میں صرف وہی سزا پاتے ہیں جن کے سر پر کسی کا ہاتھ نہیں ہوتا ورنہ نوے کی دہائی کی پاکستانی ٹیم کے آدھے کھلاڑی گھر بیٹھے  ہوتے لیکن بات صرف ایک دو پر آکر ختم ہو گئی اور جرمانہ یافتہ آج کرکٹ کے کرتا دھرتا ہیں۔

کرکٹ کو کنٹرول کرنے والے ادارے آئی سی سی نے فکسنگ کے خلاف سخت انتظامات کیے ہیں اور انٹرنیشنل ٹورنامنٹ میں ایک ایک کھلاڑی سمیت انتظامیہ اور صحافیوں تک پر نگاہ رکھی جاتی ہے۔

اسکے ساتھ ہر ملک کی ڈومیسٹک کرکٹ اور انٹرنیشنل میچوں کا بھی بغور جائزہ لیا جاتاہے لیکن اس قدر سخت انتظامات کے باوجود فکسنگ کا وائرس کہیں نہ کہیں کسی صورت میں پہنچ جاتا ہے۔

ناصر جمشید سمیت جتنے بھی کھلاڑیوں کو آج تک سزا ہوئی ہے وہ کتنی صحیح اور کتنی غلط ہے یہ توعدالتیں جانتی ہیں لیکن کرکٹ لیگز کی بھرمار اور غیر روایتی انداز کی کرکٹ یہ سوچنے پر مجبور کردیتی ہے کہ اداکاروں سے سرمایہ داروں تک کا کرکٹ میں دلچسپی لینا کسی فائدے کے بغیر تو ہو نہیں سکتا تو پھر وہ کون سے عوامل ہیں جو ان کو یہاں تک لے آئے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ کے آغاز سے چند روز قبل ناصر جمشید کی سزا نے کھلاڑیوں میں خوف بٹھا دیا ہے اور صحافیوں سے دور بھاگنے والے کھلاڑی اب اپنے سائے سے بھی خوف کھانے لگے ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اربوں روپے کمانے والے آرگنائزرز پر خوف کون طاری کرے گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ