کیماڑی میں ہلاکتیں: ’خون کے نمونوں میں زہریلی گیس یا سویا بین ڈسٹ نہیں ملا‘

محققین کے مطابق پراسرار گیس کے متاثرین کے خون میں کسی زہریلی گیس کے شواہد نہیں ملے جبکہ سویا بین ڈسٹ کی موجودگی کا امکان نہیں۔

کیماڑی کے ایک ہسپتال میں علاج کے غرض سے آیا ایک متاثر  شخص  (انڈپینڈنٹ اردو)

کراچی کے علاقے کیماڑی میں مبینہ پراسرار گیس کے اخراج کے بعد بندرگاہ کے قریب آبادیوں میں 10 ہلاکتوں اور 300 افراد افراد کے متاثر ہونے کے اسباب پر تحقیق کرنے والے کیمیکل علوم کے مرکز نے سویابین ڈسٹ الرجی کی جانب اشارہ کیا ہے۔

منگل کو جامعہ کراچی میں انٹرنیشنل سینٹر فار کیمیکل اینڈ بائیولاجیکل سائنسز (آئی سی سی بی ایس) نے کمشنر کراچی کو ایک رپورٹ ارسال کی، جس میں متاثرہ افراد میں سویابین ڈسٹ الرجی کی جانب اشارہ کیا گیا تھا۔

رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد افواہیں پھیلیں کہ کیماڑی واقعہ کے متاثرین کے خون کے نمونوں میں سویابین ڈسٹ پائی گئی ہے، تاہم ادارے کے ایک نمائندے نے اس تاثر کو مسترد کر دیا ہے۔

معاملے کی تصدیق کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے آئی سی سی بی ایس میں واقع انڈسٹریل انالیٹیکل سینٹر(صنعتی تجزیاتی مرکز) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شکیل احمد سے رابطہ کیا جو واقعے کی رات دو بجے تک رینجرز کور فائیو کی ایمرجنسی میٹنگ میں اور کراچی بندرگاہ کا معائنہ کرنے والی ٹیم کے ہمراہ موجود تھے۔

انہوں نے بتایا کہ جس رات یہ واقعہ پیش آیا ان کی ٹیم نے کراچی بندرگاہ پر موجود امریکی جہاز ’ہرکولیز‘ سے دھول اور جراثیم کش سپرے کیے ہوئے لنڈا کے کپڑوں کی سائٹ سے بھی ہوا کے نمونے بھی لیے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے علاوہ انہیں مختلف ذرائع سے خون کے 10 جبکہ پیشاب کے پانچ  نمونے موصول ہوئے، مگر یہ ان افراد کے نمونےتھے جو علاج کے بعد صحت یاب ہوچکے ہیں اور ان کی طبی ہسٹری نہیں فراہم کی گئی۔

’ہمیں ہلاک ہونے والے افراد کے خون اور پیشاب کے نمونے نہیں ملے۔ اس لیے کمشنر کراچی کو ارسال کی گئی رپورٹ حتمی نہیں اور ہم اس پر مزید تحقیقات کر رہے ہیں۔‘

زہریلی گیس کی اصل کہانی

ڈاکٹر شکیل کو جو خون اور پیشاب کے نمونے موصول ہوئے ان پر تمام زہریلی گیسز مثلاً میتھائل برومائیڈ، فاسفین گیس، ہائی ڈروجن سلفائیڈ، نائیٹروجن ڈائی آکسائیڈ اور چند غیر مستحکم (وولیٹائل) آرگینک کاربن گیسز وغیرہ کی موجودگی کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔

انہوں نے ابتدائی رپورٹس کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سے کسی بھی متاثرہ شخص کے نمونے میں زہریلی گیس کے شواہد نہیں ملے۔ ’یہ تاثر غلط ہے کہ کسی زہریلی گیس کے لیک ہونے کے باعث ہلاکتیں ہوئیں کیوں کہ جب زہریلی گیس کا اخراج ہوتا ہے تو وہ ہر شخص پر اثر انداز ہوتی ہے اور کئی ہلاکتیں ہوتیں لیکن اس معاملے میں صرف مخصوص افراد کی ہی ہلاکت ہوئی اور کئی لوگ معمولی علاج کے بعد صحت یاب ہوگئے۔ اس بات سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ زہریلی گیس کا اس میں کوئی کام نہیں تھا۔‘

انہوں نے بتایا کہ بحری جہاز پر موجود دھول کی بھی جانچ کی گئی۔ ’امریکہ میں فیومیگیشن کے لیے ایلمونیم فاسفائیڈ کی گولیاں جہاز میں رکھی جاتی ہیں جن میں سے فاسفین گیس تو خارج ہوجاتی ہے لیکن ایلمونیم پاؤڈر پیچھے رہ جاتا ہے۔

’ہمیں شک تھا کہ جہاز کی دھول میں اس پاؤڈر کی موجودگی کے باعث یہ واقعہ ہوا لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ امریکہ سے چلنے کے 39 دن بعد کراچی بندرگاہ پر لنگر انداز ہونے والے اس جہاز کی دھول میں ایلمونیم پاؤڈر موجود نہیں تھا۔‘

کیا خون میں سویابین ڈسٹ موجود تھی؟

آئی سی سی بی ایس کی جانب سے کمشنر کراچی کو ارسال کی گئی رپورٹ میں امکان ظاہر کیا گیا کہ واقعہ ہوا میں سویا بین ڈسٹ کے ذرات کی زیادہ مقداد موجود ہونے کے باعث پیش آیا۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ ایسا ایک واقعہ سپین کے شہر بارسیلونا میں 1981 میں پیش آیا تھا۔

 

ان کا کہنا تھا: ’رپورٹ میں ہم نے یہ نہیں کہا کہ سویابین ڈسٹ خون میں موجود تھی، خون میں ڈسٹ موجود ہو بھی نہیں سکتی، یہ تاثر غلط ہے۔‘

جب ڈاکٹر شکیل سے پوچھا گیا کہ آخر کن شواہدات کی بنیاد پر یہ طے کیا گیا کہ واقعہ اصل میں سویا بین ڈسٹ الرجی کے باعث ہوا ہوگا تو ان کا کہنا تھا کہ جب انہوں نے خون اور پیشاب کے نمونوں پرٹیسٹ کیے تو ابتدائی تحقیقات میں ان میں زہریلی گیسز کے شواہد نہیں ملے۔

انہوں نے مزید کہا کہ رینجرز نے انہیں ایک ویڈیو دکھائی تھی جس میں کراچی بندرگاہ پر سویا بین کو جہاز سے آف لوڈ کرنے کے وقت دھوئیں کے بادل بن رہے تھے جو ہوا کے ساتھ سفر کرتے ہیں۔ ’یہ اس صورت میں ہوتا ہے جب کرین سے سویا بین نکالنے کے دوران اسے ڈھکا نہیں جاتا جو کہ عالمی قوانین کے تحت ضروری ہے۔‘

ڈاکٹر شکیل کے مطابق محققین مزید معلومات اکھٹا کرنے ریلوے کالونی کے اُن گھروں میں گئے جہاں دو اموات ہوچکی تھیں۔ گھروالوں سے بات کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ دونوں افراد دمے کے مریض تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسی کالونی کے ایک 22سالہ رہائشی کو اتوار کی شب سانس لینے میں دشواری محسوس ہوئی تھی لیکن طبی امداد کے بعد اس کی طبعیت بہتر ہوگئی۔ ’اس نوجوان نے ہمیں بتایا کہ بستی میں اس رات کافی دھند تھی۔

’اس بات سے ہمیں شک ہوا کہ واقعے کا سویابین ڈسٹ سے تعلق ہوسکتا ہے کیوں کہ بندرگاہ پر سویابین کی ہی آف لوڈنگ سے دھند پیدا ہوتی ہے۔ مزید تحقیق کرنے کے  لیےہم نے موجودہ خون کے نمونوں پر’امیونوگلوبلین ای‘ کا ٹیسٹ کیا جس کے ذریعے معلوم ہوا کہ خون میں آئی جی ای کی مقدار کافی زیادہ تھی۔‘

آئی جی ای کیا ہے اور اس کا سویا بین سے کیا تعلق ؟

امریکی ادارے نیشنل سینٹر فار بائیوٹیکنالوجیکل انفورمیشن کے مطابق ’آئی جی ای‘ (IgE) ہمارے مدافعتی نظام کے ذریعے بننے والی اینٹی باڈیز ہیں۔ اگر آپ کو الرجی ہے تو آپ کا مدافعتی نظام آئی جی ای اینٹی باڈیز بنا کر اس الرجی کو روکنے کی کوشش کرتا ہے۔ عام طور پر یہ اینٹی باڈیز خون میں تھوڑی مقدار میں پائی جاتی ہیں لیکن کسی چیز سے الرجی کی صورت میں اس کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور جسم میں مختلف الرجک ری ایکشنز رونما ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شکیل کی تحقیق کے مطابق 10 میں سے سات نمونوں میں آئی جی ای کی مقدار کافی زیادہ آئی، جس سے واضح ہوتی ہے کہ کسی چیز سے ہونے والے الرجک ری ایکشن کے باعث ان افراد کی حالت خراب ہوئی لیکن حتمی طور نہیں کہا جاسکتا کہ یہ سویابین کی وجہ سے ہی ہوا ہے۔

’صرف صحت یاب ہونے والوں کے نمونے کافی نہیں‘

ضیا الدین ہسپتال کیماڑی کے ایمرجنسی وارڈ کے انچارج ڈاکڑمحمد عاقل نے بتایا کہ تحقیق کے لیے صحت مند ہو جانے والے افراد کے خون کا ڈیٹا کافی نہیں بلکہ ہلاک ہونے والے افراد کا ڈیٹا بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اتوار اور پیر کے بعد سے اس واقعے میں اب تک نہ کوئی موت ہوئی ہے اور نہ ہی کوئی سنگین کیس آیا ہے۔ مریض تھوڑی آکسیجن دینے کے بعد بھی صحت یاب ہوجاتے ہیں۔

ڈاکڑ محمد عاقل  کے مطابق کراچی کی بندرگاہ اور دیگر علاقوں کی فضا ویسے ہی آلودہ ہے تو ڈسٹ الرجی بہت عام ہے۔ ’اسی طرح کی صورت چار سے پانچ سال قبل بھی تھی جب کراچی بندرگاہ پر کوئلے کی آف لوڈنگ کی جاتی تھی۔

’آلودہ فضا کے باعث خون میں آئی جی ای کی مقدار تھوڑی بڑھ جانا معمولی ہے۔ صرف اس بات سے یہ اندازہ لگانا کہ سویا بین ڈسٹ الرجی کے باعث اموات ہوئیں کافی نہیں، مزید تحقیقات کی جانی چاہیے تاکہ مستقبل میں احتیاتی تدابیر اپنائی جاسکیں۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان