چالیسویں سال میں قدم یوں ہی لڑکا سا میں نکل آیا!

دوبارہ زندگی ملے تو سارے غلط کام تھوڑی جلدی عمر میں شروع کرنا چاہوں گا، اچھے کام بندہ کبھی بھی کر سکتا ہے۔

ان کہی، ان لکھی بہت سی داستانیں ہیں، عمر گزار دی گئی۔ (پکسابے)

کل رات زندگی نے پاؤں چالیسویں سال میں رکھوا دیے ہیں۔ ایک دن وجاہت بھائی سے بات ہو رہی تھی تو میں نے کہا کہ ’یار، وجاہت بھائی، میرا خیال ہے 60 سال بہت ہوتے ہیں زندہ رہنے کے لیے، اس سے زیادہ انسان کیا زندہ رہے اور کیوں رہے؟‘ بالکل سُن ہو کے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے، ایک دم تڑپ کے بولے، ’ایسا ہرگز نہیں ہے، آپ کی عمر کا تھا تو میں بھی یہی سوچتا تھا۔ اب جو 60 کے نزدیک آنے لگا ہوں تو بہت کچھ باقی لگتا ہے۔ زندگی نے مجھے بہت کچھ دیا ہے اور میرا خیال ہے یہ کوئی اتنی بری چیز نہیں ہے۔ وقت آتا جاتا رہتا ہے لیکن مجموعی طور پہ دیکھیں تو زندگی ٹھیک ہے، گزر جاتی ہے۔‘

یہ حقیقت ہے۔ پہلے سنتا تھا کہ کسی بندے کو 40 سال کی عمر میں ہارٹ اٹیک ہوا ہے تو ایویں لگتا تھا کہ ٹھیک ہے، تھوڑا جلدی ہے، لیکن کافی صحت مندی دیکھ لی بے چارے نے، آخر 40 سال کا بھی تو ہو گیا ہے نا! خدا صحت دے۔ تو بس یہ سوچ ساچ کر سائیڈ پہ ہو جاتا تھا۔ اب جو خود اس مرحلے پر آیا ہوں تو لگتا ہے کہ 40 تو کچھ بھی نہیں ہے بھئی، ابھی تو بندے فل ینگ ہوتے ہیں۔ نیٹ پہ ڈھونڈ ڈھونڈ کے وہ تحقیق پڑھتا ہوں جس میں لکھا ہوتا ہے کہ اس عمر کا بندہ صحیح والا جوان ہوتا ہے۔ وہ ریسرچ بھی اچھی لگتی ہے جس میں لکھا ہوتا ہے کہ سفید بال صرف عمر بڑھنے کی وجہ سے نہیں ہوتے۔ اسی طرح گنجے پن کو بھی خاص ہارمونز کی زیادتی اور مال موال میں برکت کا سبب جانتا ہوں اور دل ہی دل میں نہایت مطمئن محسوس کرتا ہوں۔

زندگی کو دور سے دیکھوں تو وہ ٹائم پسند لگتا ہے جس میں سکول کے چقندر نہیں تھے۔ اچھی خاصی زندگی تھی لیکن ماں باپ نے پڑھنے بھیج دیا۔ سکول سے پہلے ایک باجی کے پاس بھی جاتا تھا۔ ایک دن ٹانگوں پہ سوٹیاں ماریں انہوں نے، بھائی بھاگ آیا اللہ کے فضل سے، پھر سکول میں داخل ہونا پڑا۔ ہر وقت ہوم ورک یا کلاس ورک، کیا ہی زندگی تھی۔ ایک امتحان ختم تو اگلا سر پہ کھڑا۔ قسم خدا کی اب یاد نہیں کہ میں کسی دن دل سے سکول گیا ہوں۔ یہ صرف ایک سکول سے مشروط نہیں تھا۔ لٹل سکالرز، اس کے بعد ہیپی ہوم، پھر نشاط، ہر جگہ دے مار ساڑھے چار۔ فرسٹریٹڈ استاد یا استانیاں ہوتے تھے، ٹکا کے مارتے تھے، کام کرنے والا بھی سہما رہتا تھا کہ اب شامت آئی کہ آئی۔ پندرہ سال کی عمر میں میٹرک کرنے تک سکول کے دن نکال دوں تو زندگی بڑی خوبصورت تھی۔ پڑھائی مجبوری ہوتی ہے، کر لی، لیکن مزہ بالکل نہیں آیا۔ سکول بیٹے، آپ ہمیں بالکل پسند نہیں آئے!

پھر کالج کا دور آتا ہے۔ ابا نے بڑے مان اور چاہ کے ساتھ سائنس دلائی کہ بیٹا پڑھ لکھ کے انجنئیر بن جائے گا۔ بیٹا وہی ایک نمبر کا آئی جی۔ دوسرے سال کالج کے ہی ایک پروفیسر نے انہیں سفارش کی جا کر کہ سر جی بچہ آرٹس والا ہے، جو کام اس کا ہے نہیں وہ یہ کر بھی نہیں سکے گا۔ ابا کا دل بڑا دکھا۔ بہت مایوس ہوئے اور سوچا کہ لمڈا اب چھولے بیچے گا لیکن دل پہ پتھر رکھ کے سبجیکٹ بدلوا دیے۔ اس کے بعد پڑھائی میں سکون ہو گیا۔ بھائی نے عربی، فارسی، پنجابی، اکنامکس، صحافت، سب کچھ پڑھ پڑھا کے ایم اے کھڑکا لیا۔ تھوڑا رعب میں آنا ہے تو سن لیں کہ بعد میں ایم بی اے بھی کیا لیکن وہ بس ایک الگ ہی کہانی تھی۔ کیوں کیا کیسے کیا، اس دوران کیا کیا حادثے ہوئے، پھر سناؤں گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

گھر میں کوئی شدید غربت نہیں تھی، خدا کا فضل تھا لیکن دو سوچیں دماغ میں تھیں۔ ابا کے پیسوں کی سگریٹ نہیں پینی اور کماؤں گا نہیں تو شادی کیسے ہو گی۔ تو میٹرک کے بعد ٹیوشنیں پڑھانا شروع کر دیں۔ پھر ایک اکیڈمی کھولی سارے دوستوں نے مل کر، پھر سکول میں پڑھایا، پھر انشورنس ایجنٹ بنا، پھر کانٹیکٹ لینز بیچے، پھر میڈیکل ریپ بنا، پھر ایکسپورٹ کوالٹی گارمنٹ کا بھی کام کیا، پھر میڈیکل ریپی انتہائی حساس دوائیوں کے سرکاری ٹینڈر حاصل کرنے کی نوکری میں بدل گئی، وہ کرتا رہا، پھر لکھنا شروع کیا، پھر ایڈیٹری کی، پھر آن لائن لکھنا شروع کیا، پھر آن لائن ایڈیٹری شروع کی، پھر کالموں کے پیسے ملنا شروع ہوئے، پھر ایڈیٹری کے بھی پیسے ملنے شروع ہو گئے۔ آج کل وی لاگنگ پر توجہ ہے۔ سات آٹھ لائنوں میں 96 سے اب تک کا سفر کر لیا، لگ پتہ جاتا ہے مہربان قدر دان پر چس بڑی آئی اے!

پسند کی شادی کی، 23 سال کی عمر میں کی، نازوں میں پلی کسی کی بیٹی گھر آئی تھی، کوشش کی کہ ناز اٹھاؤں۔ جب اپنی بیٹی ہوئی تو اس بیٹی کو بھی نوکری کرنی پڑی۔ پھر ہم دونوں مل کر اپنی بیٹی کے ناز اٹھانے لگے۔ زندگی کا ساتھی ہمت والا تب کہلایا جا سکتا ہے جب وہ آپ کے کسی واہیات شوق پہ اعتراض نہ کرے۔ گھر کیکٹس، کبوتروں، کچھوؤں، کتابوں، کباڑ اور تصویروں سے بھر دیا۔ اس خدا کی بندی نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ ہاں بڑی بڑی لڑائیاں بڑی بڑی باتوں پہ ہوئیں لیکن جیسے تیسے مالک نے گاڑی سنبھالے رکھی۔ اب بیٹی کو دیکھتا ہوں، بیوی کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ پندرہ سولہ سال بڑی جلدی نکل گئے۔ لیکن جب یہ سوچتا ہوں کہ اللہ معاف کرے پیمپر اور دودھ کے ڈبے لانے میں کتنے پیسے تیل کیے ہیں تو آج بھی لگتا ہے ابھی کل کی بات ہے۔ جھرجھری آ جاتی ہے باقاعدہ۔ بچے پالنا دنیا کا سب سے مہنگا اور مشکل ترین کام ہے۔ خدا سب کے والدین کو زندگی صحت دے۔ خیر تو یہ عرصہ بھی ایسے نکل گیا۔

زندگی نے مجھے بھی وجاہت بھائی کی طرح کافی کچھ دیا ہے۔ اب کہہ سکتا ہوں کہ حسرت کسی چیز کی نہیں رہی۔ سب سے بڑی خواہش ایک زمانے میں انتظار حسین اور شمس الرحمن فاروقی سے ملنے کی ہوتی تھی، وہ بخوبی پوری ہوئی بلکہ عبداللہ حسین، شمیم حنفی، اسد محمد خان اور بانو آپا سے بھی یہ فقیر بات کرنے کا شرف حاصل کر چکا۔ اورحان پامک اور ولیم ڈیل رمپل سے بھی مل لیا۔ ایک موراکامی رہ گئے ہیں، خدا انہیں یہاں لائے یا جاپان کا بلاوا بھیجے تو وہ کام بھی ہو جائے گا۔

نیلی ٹرائی سائیکل سے چھوٹی لال سائیکل سے ایگل کی کالی سائیکل سے ویسپے سے ہونڈا سیونٹی سے ہونڈا ون ٹو فائیو سے گاڑی کا سفر بھی مولا نے کروا دیا۔ ہوائی جہازوں میں گھوم لیا، فائیو سٹاروں میں رک لیا، تین چار ملک بھی گھوم لیے، پہاڑ دیکھ لیے، سبزہ دیکھ لیا، برف نہیں دیکھی نہ دیکھنی ہے، اور جو جو کچھ دیکھنے اور کرنے کی خواہش تھی وہ بھی سب کچھ ہو گیا، کمال ہی ہوا! پھر بھی 40 سال لگتا ہے کہ کچھ نہیں ہوتے۔ کچھ نہیں کرنا، کوئی بڑی خواہش نہیں ہے، روزی لگی رہے، بچی پڑھ جائے، اچھی نوکری کر لے، بڑھاپا جتنا ایک ہو اپنے پیروں پہ نکل جائے، کوئی بڑی بیماری نہ ہو اور سب آس پاس والے ساتھ رہیں، ہمیشہ رہیں اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ موت آئے تو ایک دم آ جائے، لٹا کے، ترسا کے، رلا کے، ایسے نہیں۔ کھڑے پیری آئے، ابھی آئے کہ بیس پچیس سال بعد آئے، ایسے آ جائے تو سبحان اللہ!

دوبارہ زندگی ملے تو سارے غلط کام تھوڑی جلدی عمر میں شروع کرنا چاہوں گا، اچھے کام بندہ کبھی بھی کر سکتا ہے۔ کتابیں کم پڑھوں گا اور دوستوں کے ساتھ آوارہ گردی زیادہ کروں گا۔ اپنی پودوں کی ایک نرسری 30 سال کی عمر تک بنانا چاہوں گا۔ دونوں کان چھدوانا چاہوں گا۔ مردوں کا فیشن ڈیزائنر بننا چاہوں گا بلکہ ایک ایسی دکان جس میں گرومنگ، فوٹوگرافی اور فیشن ڈیزائننگ، تینوں سہولیات مطلوبہ صارف کو میسر ہوں وہ کھولوں گا۔ لکھنا اور ایڈیٹری پہلا عشق ہے، وہ تب بھی جاری رہیں گے۔ باقی اگر اس زندگی میں اپنے خوشونت سنگھ اور تصدق سہیل جیسی آخری عمر ہو تو بندہ مرے ہی کیوں؟ اور ہاں، کھانے کے معاملے میں خوش ذوق ہونا چاہوں گا اور ایسا معدہ مانگ کے لاؤں گا جو سب کچھ نگل لیتا ہو۔

تو یہ وہ سب کچھ تھا جو ایک بلاگ میں لکھا جا سکتا تھا، چھاپا جا سکتا تھا۔ باقی ان کہی، ان لکھی بہت سی داستانیں ہیں، عمر گزار دی گئی۔ وہ پھر ظاہری بات ہے بندہ کوئی ناول لکھتا ہے، کوئی شاعری کرتا ہے تو کسریں نکالتا ہے۔
دعاؤں کا طالب!

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ