جلد ہمارا سب سے بڑا اور مرکزی عضو ہے اور جب وہ صحت مند ہو تو ہم اس پر کچھ زیادہ توجہ بھی نہیں دیتے۔ ہمارے ہاں جلد کے حوالے سے چند غلط تصورات بھی رائج ہیں، جو معلوم ہوتا ہے کہ کافی عرصے سے ہیں۔
یہاں ہم بعض ایسی ہی ’افسانوی باتوں‘ کا ذکر کریں گے، جن سے فوری طور پر چھٹکارہ حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ میں چند ان باتوں کا بھی، جن پر بھروسہ کیا جانا چاہیے۔
جلد مسلسل تبدیل ہوتی ہے
سچ: جلد آپ کے جسم کے اندر اور باہر کے ماحول میں زبردست رکاوٹ مہیا کرتی ہے۔ کیراٹینوسٹس نامی خلیے جو جلد کی بیرونی تہہ پر پائے ہوتے ہیں، جلد کے اوپر اور نیچے کے خلیوں کو مسلسل تقسیم کرتے رہتے ہیں۔ ہماری جلد سٹیم سیلز سے بھری ہوتی ہے اور اس میں خود کو تبدیل کرنے اور تقسیم کرنے کی صلاحیت بھی پائی جاتی ہے۔
صحت مند جلد کے لیے دن میں دو لیٹر پانی پینا
جھوٹ: جتنا بھی پانی آپ پیتے ہیں وہ براہِ راست آپ کی جلد پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ پانی جلد کی نچلی تہہ کے ذریعے خون کے ساتھ جلد تک پہنچتا ہے، تاہم جلد کی بیرونی تہہ سے پانی غائب ہو جاتا ہے خاص طور پر خشک ماحول میں۔ پانی جلد کو نم (ہائیڈریٹ) رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے اور جب جسم میں پانی کی شدید کمی واقع ہوجاتی ہے تو آپ کی جلد بے رنگ اور سخت ہو جاتی ہے۔
ایک صحت مند انسان کے اندرونی اعضا جیسے کہ گردے، دل اور خون کی رگیں جلد تک پہنچنے والے پانی کی مقدار کو کنٹرول کرتی ہیں۔
جلد کے لیے پانی کی کوئی طے شدہ مقدار نہیں ہے۔ اس کا تعلق آپ کے پانی پینے اور خارج کرنے سے ہوتا ہے۔
ذہنی تناؤ سے جلد غیر صحت مند ہوتی ہے
سچ: صحت سے جڑے ایسے بہت سے مسائل ہیں جن کی وجہ ذہنی تناؤ بتائی جاتی ہے لیکن تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ جلد کی بہت سی بیماریاں زندگی میں پیش آنے والے حالات سے مزید بگڑ جاتی ہیں۔ ان میں واضح مثال ایلوپیشیا ایریاٹا (بالوں کا جھڑنا) ہے۔ اس کے علاوہ سورائسس، جو ایک اور خودکار مدافعتی حالت ہے جس میں جلد کا باریک ہونا، جھڑنا اور سوزش شامل ہیں جبکہ ایگزیما یعنی جلد کا سرخ اور خارش آور ہوجانا، بھی ذہنی تناؤ سے ہونے والے جلد کے مسائل میں شامل ہیں۔
بدقسمتی سے جلد کے یہ مسائل وہی چیزیں ہیں جو آپ کسی تناؤ یا پریشانی کے دوران نہیں دیکھنا چاہتے۔
چاکلیٹ سے مہاسے ہوتے ہیں
جھوٹ: مہاسے، جو ذیادہ تر نوعمری میں ہوتے ہیں مگر 30 اور 40 کی عمرتک بھی رہ سکتے ہیں، جلد میں پائے جانے والے گریس گلینڈز پر ہارمونل اثرات اور جلد پر رہنے والے جراثیم اور بند پورز کے خلاف مدافعتی جواب کی وجہ سے ہوتے ہیں۔
چکنائی سے بھرپور خوراک ویسے تو صحت کے لیے بہت سی وجوہات کی بنا پر مضر ہے، لیکن اس سے مہاسے نہیں ہوتے۔ حقیقتاً شدید مہاسوں کے لیے دی گئی کچھ گولیاں جیسے ایسوتریٹنوئین جسم میں اُس وقت بہتر جذب ہوتی ہیں جب وہ چکنائی سے بھرپور کھانے، جن میں چاکلیٹ بھی شامل ہے، کے ساتھ کھائی جاتی ہیں۔
کپڑے دھونے والے سرف سے ایگزیما ہوتا ہے
جھوٹ: ایگزیما میں جلد روکھی، خارش آور اور سرخ ہو جاتی ہے۔ یہ ماحولیاتی اور جینیاتی اثرات سے مل کر جلد میں سوزش کی شکل میں سامنے آتی ہے۔
صابن اور سرف جلد کو خراب کر سکتے ہیں اور خشکی بھی پیدا کرسکتے ہیں کیونکہ وہ جلد سے چکنائی کو ختم کردیتے ہیں۔
کچھ واشنگ پاؤڈروں میں ایسے اجزا شامل ہوتے ہیں جو حساس جلد کو مزید حساس کرسکتے ہیں جس سے ایگزیما مزید بگڑ سکتا ہے، اس لیے ضروری ہے کہ دھلائی کے وقت کپڑوں میں سے واشنگ پاؤڈر اچھی طرح سے نکال دیا جائے تاکہ پہننے پر جلد پر اثرنہ ہو۔
ناخنوں میں سفید نشان کا مطلب کیلشیم کی کمی
جھوٹ: ناخن جلد کے نیچے دبے نیل میٹرکس میں بنتے ہیں۔ اگر اس میٹرکس کو کوئی نقصان ہو جائے تو بنتے ہوئے ناخن میں ہوا بھر سکتی ہے۔ یہ قید ہوا ناخن میں سفید نشان کی شکل میں نظر آتی ہے۔
کیلشیم صحت مند ناخن، دانت اور ہڈیوں کے لیے بہت ضروری ہے، مگر ناخنوں میں سفید نشان کیلشیم کی کمی سے نہیں ہوتے۔
دھوپ آپ کے لیے اچھی ہے
سچ اور جھوٹ: دھوپ کے اچھے اور برے اثرات ہیں۔ سورج کی شعاعوں میں مختلف الٹراوائلٹ (UV) شعاعیں ہوتی ہیں۔ جلد UVB شعاعوں کا استعمال وٹامن ڈی بنانے کے لیے کرتی ہے جو ہڈیوں کی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ سورج کی روشنی کے بغیر اس وٹامن کو خوراک سے حاصل کرنا پڑتا ہے۔
لیکن UV شعاعوں کا ذیادہ سامنا کرنے سے جلد کے خلیات کے ڈی این اے کو نقصان پہنچ سکتا ہے جس سے سیلز زیادہ بڑھ سکتے ہیں اور کینسر ہو سکتا ہے۔
کبھی کبھار دھوپ آپ کے لیے اچھی ہے، مگر اس میں زیادہ دیر رہنے سے پرہیز کریں۔
بنیادی اصول
جلد کو صحت مند رکھنے کے بنیادی اصول یہ ہیں کہ اسے صاف رکھنے کے لیے باقاعدگی سے دھویں، لیکن اتنا زیادہ نہیں کہ جلد کی ضروری نمی اور چکنائی ختم جائے۔ اس کے علاوہ جلد خشک یا کھنچی ہوئی محسوس ہونے پر موئسچرائزر لگایئں، جتنا زیادہ ممکن ہو ذہنی تناؤ سے بچیں، صحت مند خوراک لیں، پیاس محسوس ہونے پر پانی پییں اور زیادہ سورج کی روشنی سے بچیں۔
سارہ جے براؤن، سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف ڈنڈی میں مولیکیولر اور جینیٹک ڈرماٹولوجی کی پروفیسر ہیں۔