خاندان یا برادری میں شادیوں سے جینیاتی امراض کا خطرہ

لاہور کے چلڈرن ہسپتال کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں مختلف بیماریوں میں مبتلا 60 سے 70 فیصد بچوں کے ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ ان میں یہ بیماریاں موروثی طور پر منتقل ہوئی ہیں۔

پاکستان میں جینیاتی ٹیسٹ اور سروے کرنے والے لاہور کے چلڈرن ہسپتال کی ایک رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں مختلف بیماریوں میں مبتلا 60 سے 70 فیصد بچوں کے ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ ان میں یہ بیماریاں موروثی طور پر منتقل ہوئی ہیں۔

اس حوالے سے 29 فروری کو نایاب بیماریوں (Rare Diseases)  سے متعلق عالمی دن کی مناسبت سے لاہور کے چلڈرن ہسپتال کے شعبہ گردہ و جگر کی جانب سے ایک آگاہی سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔

یہ پاکستان کا واحد ادارہ ہے جو مہلک بیماریوں میں مبتلا بچوں کے جینیٹک ٹیسٹ مفت کرتا ہے۔

حال ہی میں اس ادارے کی جینیٹک رپورٹ کے سلسلے میں صوبے بھر سے دو ہزار خاندانوں کے ٹیسٹ کیے گئے، جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ خاندان یا ذات برادری کے اندر شادیوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچوں میں جینیاتی (جینیٹک) امراض کی شرح خطرناک حد تک زیادہ ہوتی ہے۔

چلڈرن ہسپتال کی پروفیسر ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ کے مطابق ملک بھر میں مختلف بیماریوں میں مبتلا 60 سے 70 فیصد بچوں کے ٹیسٹوں سے پتہ چلا ہے کہ ان میں یہ بیماریاں موروثی طور پر منتقل ہوئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ کے مطابق بیماریوں میں مبتلا زیادہ تر بچے وہ تھے، جن کے والدین کی خاندان میں ہی یا ایک ہی ذات برادری میں شادی ہوئی۔

عمومی طور پر پنجاب میں آرائیں، راجپوت، بلوچ اور جٹ برادری کے زیادہ بچوں میں موروثی بیماریاں دیکھنے میں آئیں، تاہم خیبرپختونخوا میں بھی پشاور، مالاکنڈ اور وزیرستان سے تعلق رکھنے والے وہ بچے زیادہ متاثر نظر آئے، جہاں خاندان میں شادیاں کرنے کا رواج ہے۔

رپورٹ کے مطابق جینیٹک ٹیسٹ کرائے بغیر کزن میرج یا برادری میں شادیوں کے باعث بچوں میں دل،گردے، جگر اور دماغی امراض سمیت مہلک بیماریاں جینز کے ذریعے منتقل ہوتی ہیں۔

خاندانوں کے جینیاتی ٹیسٹ کیسے کیے گئے؟

ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے انٹرویو میں بتایا کہ جینز کے ذریعے بچوں میں مہلک بیماریوں کی منتقلی میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچکا ہے اور ان امراض کے باعث بچوں کی اموات کی شرح بھی 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔

ڈاکٹر ہما کے خیال میں جن خاندانوں میں بچوں کی شادیاں آپس میں کی جاتی ہیں انہیں چاہیے کہ پہلے وہ جینیٹک ٹیسٹ لازمی کروائیں تاکہ اندازہ ہوسکے کہ ان کے جینز بچوں میں منتقل ہونے سے انہیں کوئی بیماری وراثت میں نہ مل سکے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر مہلک بیماریوں کے شکار زیر علاج  بچوں کے بہن بھائیوں، والدین اور دیگر خونی رشتے داروں کے خون کے نمونے لیے، جن سے معلوم ہوا کہ ایک سال کی عمر میں بیماری سے مرنے والے زیادہ تر بچوں میں یہ بیماری والدین سے منتقل ہوئی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر خاندانوں کی طبی تفصیلات جمع کی جائیں تو بچوں میں موروثی بیماریاں فوری تشخیص ہوتی ہیں۔

جینٹک مسائل اور تدارک کے لیے اقدامات

پاکستان میں جینز کے ذریعے بچوں میں بڑھتے ہوئے مہلک امراض پر قابو پانا ناگزیر ہوچکا ہے، مگر حکومتی سطح پر اس مسئلے کے حل کی جانب کوئی اہم پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

ڈاکٹر ہما ارشد چیمہ کہتی ہیں کہ انہوں نے اس معاملے پر محکمہ صحت کو دو بار سفارشات بھجوائی ہیں کہ پاکستان میں کوئی بڑا ہسپتال جینیٹک ٹیسٹ نہیں کرتا جبکہ بیماری کی تشخیص پر صرف علاج معالجے کی سہولت فراہم کر دی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملک بھر سے جینیاتی ٹیسٹوں کے لیے دور دراز علاقوں سے مریضوں کو چلڈرن ہسپتال لاہور آنا پڑتا ہے اور یہ ٹیسٹ چھ سے آٹھ لاکھ روپے میں ہوتے ہیں، اس لیے کوئی بھی ہسپتال اس قسم کی لیب بنانے میں سنجیدہ نہیں۔

ڈاکٹر ہما کے مطابق انہوں نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ پنجاب کے لیے لاہور میں انسٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ جینیٹک سینٹر قائم کیا جائے تاکہ علیحدہ سے اس بارے میں ریسرچ ہو، ٹیسٹ کیے جائیں اور اس کی روک تھام کی حکمت عملی بنائی جائے۔

عالمی سطح پر جینیاتی بیماریوں کی نشاندہی

جینیٹک امراض سے متعلق صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں ریسرچ کی جا رہی ہے۔

گذشتہ دنوں برطانیہ میں ’ڈیسائفرنگ ڈیولپمنٹل ڈس آرڈرز‘ (ڈی ڈی ڈی) کے نام سے ایک سروے کیا گیا، جس میں دستیاب اعلیٰ ترین ٹیکنالوجیز استعمال کی گئی ہیں۔ اس مطالعے کو بچوں کے پیدائشی امراض کا سب سے بڑا جینیاتی سروے کہا جاسکتا ہے۔

ڈی ڈی ڈی میں برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس (این ایچ ایس) کے 200 جینیات دانوں نے 20 ہزار سے زائد جینز کا بغور مطالعہ کیا۔

کیمبرج میں ویلکم ٹرسٹ سینگر انسٹی ٹیوٹ میں کی گئی اس تحقیق کے اہم ماہرین ڈاکٹر میتھیو ہرلس اور جیریمی مک رائی ہیں۔

ماہرین نے اس کے لیے چار ہزار 293 خاندانوں کے جینز کا مطالعہ کیا اور یہ بات سامنے آئی کہ ان میں کوئی نہ کوئی جینیاتی عارضہ موجود تھا۔

اس مطالعے کو انجام دینے کے لیے ایکزوم سیکوئنسنگ استعمال کی گئی تھی جس میں انسانی ڈی این اے کے وہ علاقے دیکھے جاتے ہیں جو ایسے پروٹین بناتے ہیں جو کسی قسم کا عارضہ یا بیماری پیدا کرسکتے ہیں۔

 اس سروے کے نتائج کا طبی جائزہ بھی لیا گیا اور پہلے سے موجود ہزاروں کیسز سے ان کا موازنہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی کہ صرف برطانیہ میں سالانہ چار لاکھ بچے پیدائشی عارضوں اور امراض کے شکار ہوتے ہیں، جس کی وجہ موروثی ہوتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت