جیش محمد کو حاصل عوامی حمایت حکومت کے لیے مسئلہ؟

مسعود اظہر کو بہاولپور میں حاصل عوامی حمایت تازہ حکومتی کریک ڈاؤن میں پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔

جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر

بہاولپور: جنوبی پنجاب کے شہر بہاولپور کی گنجان سڑکوں پراقوام متحدہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دی جانے والی تنظیم جیش محمد اور مسعود اظہر کی بڑی حمایت نظر آتی ہے۔

بھارت سے کشیدگی کے بعد عمران خان نے حال ہی میں پاکستان میں سرگرم کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا تھا۔

پاکستان کے محکمہ داخلہ کے مطابق، حکومت نے 68 عسکریت پسند تنظیموں کو کالعدم قرار دے رکھا ہے جن میں لشکر طیبہ اور جیش محمد بھی شامل ہیں۔

تاہم، اے پی کے مطابق جیش محمد اور مسعود اظہر کو بہاولپور میں کافی عوامی حمایت حاصل ہے جو تازہ سرکاری کارروائیوں میں پیچیدگیوں کا سبب بن سکتی ہے۔

بہاولپور کے ایک باریش دکان دار طاہر ضیا کا کہنا ہے کہ جیش محمد کوئی دہشت گرد تنظیم نہیں بلکہ وہ اسلام پھیلانا چاہتے ہیں۔

ایک اور دکان دار سجاد علی، مسعود اظہر کو  ’امن کی شخصیت‘ قرار دیتے ہوئے  ان پر عائد دہشت گردی کے الزمات کو بھارتی پراپیگنڈا سمجھتے ہیں۔

ایک جگہ پر پرجوش نوجوان حافظ مزمل کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے خلاف تقریر میں جیش محمد اور مسعود اظہر کو اسلام کے ہیرو کے طور پر پیش کر رہے تھے اور موقع پر موجود ہجوم ان کے موقف کی تائید کرتا پایا گیا۔

14 فروری کو متنازعہ کشمیر میں خود کش حملے میں 40 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کے بعد جیش محمد نے مبینہ طور پر واقعے کی ذمہ داری قبول کی تھی۔

پلواما حملے کے بعد بھارت نے پاکستان کے اندر بالاکوٹ میں جیش محمد کے مبینہ ٹھکانے پر حملے کیے جو بعد میں انتہائی مشکوک ثابت ہوئے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدگی کے بعد دنیا کی توجہ بہاولپور پر مرکوز ہو گئی ہے۔

بیس لاکھ آبادی والے اس شہر میں جیش محمد کا صدر دفتر موجود ہے۔

بہاولپور چولستان صحرا کے دہانے پر واقع ہے اور اس پسماندہ علاقے میں پچھلی کچھ دہائیوں سے عسکریت پسندی پھیلی ہے۔

برسلز میں واقع انٹرنیشنل کرائسس گروپ کے مطابق، اس علاقے میں اسلامی ملکوں سے ملنے والے عطیات سے غریب لوگوں کے لیے مدرسوں کا ایک پورا نیٹ ورک وجود میں آیا ہے۔

لندن کے کنگز کالج میں عالمی امور کے ماہر عدنان نسیم اللہ نے پاکستانی حکومت کے کریک ڈاؤن کے خلاف عوامی ردعمل کا خطرہ ظاہر کیا ہے۔

’اگر پاکستان لشکر طیبہ، جیش محمد اور حرکت المجاہدین کے خلاف سخت کارروائی کرے گا تو اسے اندورنی طور پر پرتشدد ردعمل کا خطرہ رہے گا‘۔

نسیم اللہ مزید کہتے ہیں: اگر پاکستان عسکریت پسندی کے خلاف عدم برداشت کی پالیسی اپنائے تو ایک وقت ایسا آئے گا جب توجہ واپس کشمیر اور کشمیریوں سے ناروا سلوک پر ہو جائے گی جو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔

پاکستان میں عسکریت پسندی پر دو کتابیں لکھنے والے مصنف زاہد حسین کے مطابق ماضی میں کئی حکومتوں نے ان تنظیموں کے خلاف کارروائی کا وعدہ کیا لیکن ایسا نہ ہو سکا۔

’یہ نا صرف پاکستان کی داخلی سیکورٹی کے لیے خطرہ ہیں بلکہ ان سے سرحد پار حملوں کے لئے پاکستانی سر زمین بھی استعمال کرنے کا خدشہ رہتا ہے‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین