گلگت کے  'فوجی' گلوکار کو لوگ کرونا پکارنے لگے

میں ادھر بازار میں چلتا ہوں تو لوگ مجھے کرونا کہہ کر پکارتے ہیں، وہ مجھ سے نفرت تو نہیں کرتے۔ انہیں اگر یہ نام پسند ہے تو مجھے بھی پسند ہے: ذوالفقار فوجی

کرونا وائرس کی وبا جوں جوں پاکستان اور دنیا بھر میں پھیل رہی ہے کئی معروف و نو آموز فنکار بھی عوام کو اس موذی وائرس سے بچاؤ کے طریقے بتانے کے لیے اپنے فن کا سہارا لے رہے ہیں۔ گذشتہ دنوں گلوکار کرونا کے حوالے سے علی ظفر کا گانا سامنے آنے پر جہاں سوشل میڈیا صارفین نے اسے پسند کیا وہیں کئی لوگوں نے اس گانے پر احتجاج بھی کیا۔

اسی دوران گلگت بلتستان کے ایک مقامی شاعر اور گلوکار ذالفقار فوجی کا کرونا کے بارے میں گانا سوشل میڈیا پر سامنے آیا تو صارفین کی ایک بڑی تعداد نے انہیں 'کرونا گلوکار' کا نام دے دیا۔

انڈپینڈنٹ اردو نے گلگت شہر کے نواحی گاؤں نوپورا بسین میں ذوالفقار فوجی نامی اس شاعر و گلوکار کو بالآخر تلاش کر ہی لیا۔

پاکستانی فوج سے ریٹائرڈ ہونے والے ذوالفقار گلگت شہر کے نواح میں کریانے کی ایک چھوٹی سی دکان چلاتے ہیں اور شوقیہ گلوکاری اور شاعری کرتے ہیں۔ ان کی شاعری کا موضوع زیادہ تر عوامی رویے اور سماجی مسائل رہتے ہیں اور وہ اپنی شاعری کے ذریعے عوامی رویوں میں بدلاؤ لانے کی کوشش کرتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے ذوالفقار فوجی نے بتایا کہ وہ فوج میں ملازمت کے دوران بھی شاعری اور گلوکاری کرتے تھے اور فوج میں ڈرامہ ٹیم کا حصہ بھی رہے، اسی وجہ سے انہوں نے اپنا تخلص 'فوجی' منتخب کیا۔

ان کا کہنا تھا: 'یہ شاعری ہمیں وراثت میں ملی ہے۔ میں جب چھوٹا سا تھا تب سے شاعری اور گلوکاری کر رہا ہوں۔'

ذوالفقار کے بھائی صلاح الدین اسد بھی گلوکار ہیں اور دونوں بھائی اردو کے علاوہ شینا اور دوسری مقامی زبانوں میں بھی گلوکاری کرتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ وہ اپنی اکثر شاعری خود گاتے ہیں اور اگر دوسرے گلوکاروں کو پسند آ جائے تو وہ بھی گاتے ہیں۔

'جب میں فوج میں تھا تو میں اردو میں قوالیاں لکھتا تھا۔ میں نے اردو زبان میں تقریباً 271 قوالیاں لکھی ہیں اور دو انگلش گانے بھی گائے ہیں۔'

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ذوالفقار فوجی کے بقول وہ زیادہ پڑے لکھے نہیں، صرف میٹرک تک تعلیم حاصل کی مگر جب بھی کوئی موضوع ملتا ہے تو اس پر کچھ نہ کچھ لکھ دیتے ہیں۔ انہوں نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد اردو کے علاوہ شینا زبان میں شاعری اور گلوکاری شروع کی۔

وہ کہتے ہیں کہ جب بھی کوئی گانا لکھتے ہیں، پھر اسے گاتے ہیں تو اس کا مسودہ پھاڑ دیتے ہیں یا پھینک دیتے ہیں۔ 'میں نے کبھی اپنی شاعری کو مرتب کرنے کی کوشش کی اور نہ ہی کبھی کوئی گانا باقاعدہ ریکارڈ کیا یا البم بنانے کا سوچا۔ کبھی کبھی کوئی دوست موبائل سے کوئی گانا ریکارڈ کر کے سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیتا ہے۔'

کرونا وائرس پر لکھا ان کا گانا بھی ایک دوست نے ان کی دکان پر ریکارڈ کیا اور پھر سوشل میڈیا پر پوسٹ کر دیا۔

انہوں نے بتایا: 'مجھے اندازہ نہیں تھا کہ لوگ اس گانے کو اتنا پسند کریں گے اور مجھے کرونا گلوکار کا نام دے دیں گے۔'

کیا لوگوں کی طرف سے کرونا کا نام دینا انہیں برا نہیں لگا؟ اس سوال پر ذوالفقار فوجی کا کہنا تھا کہ لوگوں نے جو بھی نام دیا وہ محبت میں دیا۔ 'میں ادھر بازار میں چلتا ہوں تو لوگ مجھے کرونا کہہ کر پکارتے ہیں، وہ مجھ سے نفرت تو نہیں کرتے۔ انہیں اگر یہ نام پسند ہے تو مجھے بھی پسند ہے۔'

وہ کہتے ہیں کہ فوج میں ملازمت کے دوران جب کوئی ڈرامہ کرنا ہوتا تھا یا انہیں قوالی لکھنے کے لیے موضوع دیا جاتا تو وہ اس موضوع پر قوالی لکھتے اور اس کے ذریعے کوئی نہ کوئی خاص پیغام دینے کی کوشش کرتے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری زیادہ تر سماجی نوعیت کے موضوعات پر ہے۔

ذوالفقار فوجی خود سوشل میڈیا استعمال کرنا نہیں جانتے البتہ ان کے دوستوں نے ان کے کئی گانے فیس بک اور یوٹیوب پر پوسٹ کر رکھے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ پہلے تو وہ اتنے مشہور نہیں ہوئے مگر جب سے کرونا پر انہوں نے گانا گایا ہے تو پاکستان سے اور بیرون ملک سے بھی لوگ ان سے رابطے کرتے ہیں۔ کچھ دوستوں کے ذریعے پیغام بھیجتے ہیں اور کچھ نے خود ٹیلی فون کرکے ان کے گانے کی تعریف کی۔

زیادہ پڑھی جانے والی فن